مبئی:(پریس ریلیز) ریاست مہاراشٹرا میں بڑھتی جارحیت اورآزادیٔ اظہار رائے پر ہو رہے حملوں میں لگاتاراضافہ ہو رہا ہے۔ مہاراشٹر کا شہر پونہ اپنی ثقافتی ،ادبی سرگرمیوں کی وجہ سے پورے ملک میں اپنا ایک علحدہ مقام رکھتا ہےحال ہی میں اس شہر میں ایسی دو وارداتیں ہوئیں جس سے پونہ شہر سرخیوں میں بنا رہا۔ ایک طرف ہندوتوا وادی تنظیم کے نوجوانوں نے یونیورسٹی کیمپس میں گھس کر ہنگامہ ارائی کی وہیں دوسری طرف سینیئر جنرلسٹ نکھل واگلے پرجان لیواحملہ کیا گیا۔’جن وادی لیکھک سنگھ ‘ان حملوں کی سخت مذمت کرتا ہے اور حملہ آوروں کے خلاف سخت اقدام اٹھانے کی مانگ کرتا ہے ۔ گذشتہ دو فروری کو ساوتری بائی پھولے پونہ یونیورسٹی کے فائن آرٹس سینٹر میں ایک امتحانی اسائنمنٹ کے طورپرڈرامہ ‘جب وی میٹ’ اسٹیج کیا جا رہا تھا، اس شو میں ‘راماین’ سے متعلق کسی سین پراعتراض جتاتے ہوئے آر ایس ایس اور بی جے پی سے منسلک طلبہ تنظیم اے بی وی پی نے مذہبی جذبات مجروح ہونے کی بات کہہ کر کیمپس میں خوب ہنگامہ آرائی کے ساتھ ساتھ توڑ پھوڑکی۔ کمال تو تب ہوا جب یونیورسٹی انتظامیہ نے ہنگامہ کرنے والوں کے دباؤ میں آ کرپولس میں اپنے ہی چھ طلبہ کے خلاف جذبات مجروح کرنے جیسے معاملات بنوائے۔ سا تھ ہی منیجمنٹ نے ائندہ کیمپس میں دیومالائی کردار کی پیروڈی کو سراسر ممنوع قرار دے دیا۔ ٹھیک یہی صورت حال 2022 میں گجرات کی بڑودہ کی ستیاجی راؤ یونیورسٹی میں دیکھی گئی تھی، جہاں فائن آرٹس کے امتحانات کی جانچ کے لیے منعقد کی جا رہی نمائش کے دوران اے بی وی پی کے ارکان نے اپنے جذبات مجروح ہونے کے نام پر توڑ پھوڑکی تھی اور پورے کیمپس میں تہلکہ مچا دیا تھا۔ اس وقت اس معا ملہ میں بھی طالب علم اورفیکلٹی پر ہی کیس بنائے گئے تھے۔وہیں ہنگامہ کرنے والوں کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا گیا۔ ساوتری بائی پھولے (پونہ) یونیورسٹی میں ہوئے اس ہنگامہ کے کچھ دن بعد، 9 فروری کو پونہ میں ہی ‘نربھئے بنو وچار منچ’ نے اس فا شسٹ رویہ کے خلاف اپنا احتجاج درج کروانے کی غرض سے پونہ کے سانے گروجی ہال میں ایک جلسہ منعقد کیا۔ اس جلسہ میں سینئر صحافی نکھل واگلے، وکیل اسیم سرودے، وشومبھر چودھری اور دیگر ساتھی مدعو تھے۔ لیکن پولس کسی بھی قیمت پر اس جلسہ کو ملتوی کروانا چاہ رہی تھی۔
جب نکھل اور ان کے ساتھی ہال کی طرف روانہ ہوئے اسی دوران پولس کی موجودگی میں ہجوم نے ان پر لاٹھیوں ، پتھروں سے ان کی کار پرحملہ کر دیا۔ راستہ میں کئی مقامات پران پر اسی طرح کئی بارجان لیوا حملہ کیا گیا ۔ کارڈرائیورکی سوجھ بوجھ سے نکھل واگلے آوران کے ساتھی جیسے تیسے ہال تک محفوظ پہنچ پائے۔ جنوادی لیکھ سنگھ ان بنیاد پرست ہندوتوا نظریات سے وابستہ تنظیموں کی غنڈہ گردی اوردانشوروں پر ہوئے اس قاتلانہ حملے کی شدید مذمت کرتا ہے۔ یہ حملے براہ راست آزادیٔ اظہار رائے کے حق کو ختم کرنے کے لیے کیے جا رہے ہیں۔ پچھلے کچھ برسوں سے خاص طور پرایسے ادیبوں اوردانشوروں کو مسلسل نشانہ بنایا جا رہا ہے جو حکومت سے سوال پوچھ رہے ہیں اس جان لیوا حملے کے بعد نکھل واگلے نے ٹویٹ کیا، “یہ حملہ پولیس کی ملی بھگت سے ہوا ہے۔ وہ اس حملے کے ڈر سے اپنی آواز بند نہیں کریں گے۔ یہ جیوتی با پھولے اور امبیڈکر کی سرزمین ہے۔ مجھے دوسری زندگی عطا ہوئی ہے۔ میں اپنی زندگی انصاف کی جد وجہد کے لیے وقف کرتا ہوں جن وادی لیکھک سنگھ نکھل واگلے اور انکے ساتھیوں پر ہوئے حملے کے ساتھ ساتھ ساوتری بائی پھولے پونہ یونیورسٹی پرہوئے حملے، ریاستی حوکومت اور پولیس کے رویہ کی مذمت کرتا ہے جلیس کا مطالبہ ہے کہ فلم انسٹی ٹیوٹ میں کی گئی ہنگامہ آرائی اور توڑ پھوڑ کرنے والوں کے خلاف فوری طور پر مناسب کارروائی کی جائے اور ریسرچ اسٹوڈنٹس پر لگائے گئے ان سارے الزامات کو واپس لیا جائے۔ یہ بات تشویش ناک ہے کہ مہاراشٹر میں اس طرح کے جنونی ہجوم کے حملے متواتر بڑھ رہے ہیں ان تمام حملوں میں مہاراشٹر حکومت کا کردار بھی مشکوک نظر آتا ہے۔ یہ حملہ آزادیٔ اظہار کو طاقت کے ذریعے دبانے کی کوشش ہے۔ جن وادی لیکھک سنگھ ان فاشسٹ حملہ آوروں کے خلاف سخت قانونی کارروائی کا مطالبہ کرتی ہے۔ ‘جلیس’ مہاراشٹرا اسٹیٹ کمیٹی ان دونوں پرتشددواقعات کی پرزور مذمت کرتی ہے اور ملک بھر کے دا نشوروں ، ادیبوں صحا فیو ں اور فنکاروں سے اس سانحہ کی کھل کر مخالفت کرنے کا مطالبہ کرتی ہے۔
نجمن جمہوریت پسند مصنفین جنوادی لیکھک سنگھ مہا راشٹر ادیبوں صحافیوں پرہو رہے حملوں اور آزادی اظہار رائے کے خلاف جاری تشدد کی سخت مذمت کرتا ہے !
Leave a comment
Leave a comment