نئی دہلی (پریس ریلیز) آج یہاں وقف ترمیمی بل 2024کے تناظرمیں کانسٹی ٹیوشن کلب میں جمعیۃعلماء ہند اورمسلم پرسنل لاء بورڈکی طرف سے منعقد ایک پرہجوم مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے صدرجمعیۃعلماء ہند مولانا ارشدمدنی نے کہا کہ وقف پر حکومت جو ترمیمی بل لے کرآئی ہے اس سے ہمارے مذہب اوراوقاف پر ضرب لگتا ہے اس بل سے ہماری اقتداراورہمارے اصول متاثرہوتے ہیں اس لئے ہمیں اس کے خلاف احتجاج کرنے کا حق ہے انہوں نے کہا کہ ابھی جوپارلیمانی الیکشن ہوااس میں تقریروں میں اسلام اورمسلمانوں پر مسلسل چوٹ کی جاتی رہی تاکہ ہندومسلم کے درمیان نفرت پیداکرکے الیکشن جیت لیاجائے مگریہ تجربہ ناکام رہا۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ ملک کے عوام نے جس میں تمام مذاہب کے ماننے والے شامل ہیں بی جے پی کے اس ایجنڈے کو مستردکردیااس طرح بی جے پی جوپارلیمنٹ میں تنہا اکثریت میں ہوتی تھی آج اقلیت میں آگئی،اسے شکست کا منہ دیکھنا پڑامولانا مدنی نے، زوردیکر کہاکہ ہم آج سے نہیں پچھلے تقریبا تیرہ سوبرس سے برادران وطن کے رہن سہن میں شریک رہے ہیں مگر افسوس اوپر بیٹھے ہوئے ایک شخص کو یہ بات پسند نہیں ہے، سیاسی کامیابی کے لئے ہندومسلم کی سیاست کو ہی وہ ایک کارگرحربہ تصورکرتاہے انہوں نے وضاحت کی کہ یہ مسئلہ وقف کے تحفظ کانہیں ہے ملک کے آئین کے تحفظ کا بڑا مسئلہ ہے یہ وہ سیکولرآئین ہے جس کے لئے ہمارے اکابرین ڈیڑھ سوسال تک ملک کو غلامی سے آزادکرانے کے لئے قربانیاں دیتے رہے چنانچہ ہم کہہ سکتے ہیں اوریہی حقیقت ہے کہ ملک کا سیکولر آئین جمعیۃعلماء ہند کے اکابرین نے بنوایا ہے اس کے دستاویزی ثبوت ہمارے پاس موجودہیں، انہوں نے آگے کہا کہ آزادی سے قبل ہی ہمارے اکابرین نے اس وقت کی کانگریس قیادت سے اس بات کا عہد لے لیا تھا کہ آزادی کے بعد ملک کا آئین سیکولر ہوگا چنانچہ آزادی کے بعد جو آئین مرتب ہوا اس میں ملک کی تمام مذہبی اقلیتوں کو مذہبی آزادی ہی فراہم نہیں کی گئی بلکہ دوسرے کئی اہم اختیارات بھی دیئے گئے، مولانا مدنی نے کہا کہ موجودہ حکومت آئین میں شامل ان دفعات کی مخالف ہے جس میں اقلیتوں کے مذہبی مقامات عمارتوں،قبرستان، امام باڑوں اوراسکولوں کو تحفظ کی ضمانت دی گئی ہے، چنانچہ یہ ترمیمی بل آئین کی نہ صرف بالادستی کو ختم کرتاہے بلکہ اس میں کی گئی ترمیمات کے ذریعہ حکومت وقف املاک کو مسلمانوں کے ہاتھوں سے چھین لینا چاہتی ہے اس لئے ہم اس کے اس خطرناک نظریہ کی پوری شدت کے ساتھ مخالفت کرتے ہیں،انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہندومذہبی مقامات کی دیکھ بھال اورتحفظ کے لئے جو شرائن بورڈ تشکیل دیا گیا اس کے لئے صاف طورپر یہ وضاحت موجودہے کہ جین، سکھ یابودھ اس کے ممبرنہیں ہوں گے، انہوں نے سوال کیا کہ اگر جین، سکھ اوربودھ شرائن بورڈکے ممبرنہیں ہوسکتے تو وقف بورڈمیں غیر مسلموں کی نامزدگی اورتقرری کو کس طرح درست ٹھہرایاجاسکتاہے،؟جبکہ جین اور بدھ ہندوومذہب سے الگ نہیں سمجھاجاتابلکہ انہیں ایک الگ فرقہ تصورکیا جاتاہے، چنانچہ اگر شرائن بورڈمیں ہندوہوتے ہوئے بھی ایک فرقہ ہونے کی بنیادپر ان کی شراکت نہیں ہوسکتی تو وقف بورڈوں میں غیرمسلموں کی نامزدگی اورتقرری کو لازمی کیوں کیا جارہاہے؟صحافیوں کے ذریعہ پوچھے گئے سوالات کاجوابدیتے ہوئے انہوں نے یہ وضاحت کی کہ یوپی، کیرالا، کرناٹک، تمل ناڈو، آندھراپردیش وغیرہ میں ایسے قوانین موجودہیں کہ ہندومذہب کی املاک کے امورکا انتظام کرنے والوں کا ہندومذہب کاپیروکارہونا ضروری ہے، جس طرح ہندووں، سکھوں اورعیسائیوں کے مذہبی امورمیں کسی دیگر مذہبی طبقہ کی مداخلت نہیں ہوسکتی ہے تو ٹھیک اسی طرح وقف کی جائیدادوں کا انتظام بھی مسلمانوں کے ہی ذریعہ ہونا چاہئے، اس لئے ہمیں کوئی ایسی تجویز اوقاف کے نظام میں ہر گزقبول نہیں ہے، انہوں نے کہا کہ اس سے صاف ظاہر ہے کہ حکومت کی نیت میں کھوٹ ہے، اور اس بل کے ذریعہ اس کا مقصدکام کاج میں شفافیت لانا اورمسلم طبقہ کو فائدہ پہنچانا نہیں بلکہ مسلمانوں کو ان کی وقف جائیدادوں سے محروم کردینے کے ساتھ ساتھ وقف جائیدادوں پر سے مسلمانوں کے دعوے کو کمزوربنادینا ہے، یہی نہیں بل میں کی جانے والی ترمیمات کی آڑلیکر کوئی بھی شخص کسی مسجد، قبرستان،امام باڑگاہ، عمارت اوراراضی کی وقف حیثیت پر سوالیہ نشان لگاسکتاہے، مولانا مدنی نے یہ بھی کہاکہ اس طرح نئے تنازعات کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہوسکتاہے اورترمیمی بل میں موجود مسلمانوں کی کمزورقانونی حیثیت کا فائدہ اٹھاکر وقف جائیدادوں پر قبضہ کرنا آسان ہوسکتاہے، انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہم ایک دوترمیم کی بات نہیں کررہے ہیں بلکہ بل کی زیادہ ترترمیمات غیر آئینی اوروقف کے لئے خطرناک اورتباہ کن ہے،دوسرے یہ بل مسلمانوں کودیئے گئے آئینی اختیارات پر بھی ایک حملہ ہے، آئین نے اگر ملک کے ہر شہری کو مذہبی آزادی اوریکساں حقوق دیئے ہیں تو وہیں ملک میں آباد اقلیتوں کو بعض خصوصی اختیارات بھی دیئے گئے ہیں اورترمیمی بل ان تمام اختیارات کی مکمل طورپر نفی کرتاہے،اخیرمیں مولانا مدنی نے حیرت کا اظہارکرتے ہوئے کہاکہ وقف ترمیمی بل 2024کے تحت تجویز دی گئی ہے کہ موجودہ ایکٹ کی تجویز سیکشن 40 کو سرے سے حذف کردیاجائے جبکہ اوقاف پر 2006مشترکہ پارلیمانی کمیٹی اورجسٹس سچر کمیٹی نے رپورٹ کیا تھا کہ بڑی تعدادمیں وقف کی جائیدادوں پر ناجائز قبضہ ہیں اوراسی سچرکمیٹی رپورٹ کا حوالہ موجودہ حکومت بھی دے رہی ہے، لیکن اس کے باوجود 2024کے بل میں یہ تجویز دی گئی ہے کہ ریاستی وقف بورڈکو یہ حق نہیں دیاجائے گاکہ ان جائیدادوں کی نشاندہی کرے جس پرناجائز قبضہ ہیں اوران کی بازیابی کے لئے کوشش کرے۔ حکومت کی یہ تجویز اوقاف کے وجودکے لئے انتہائی نقصاندہ ہے،ایک اورسوال کے جواب میں مولانا مدنی نے صاف گوئی سے کہا کہ پچھلے دس برسوں کے دوران ملک کی اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کو پیٹھ سے لگادینے اوریہ باورکرانے کے لئے کہ اب بحیثیت شہری ان کے کچھ بھی حقوق اوراختیارات نہیں رہ گئے ہیں کئی قانون جبریہ طورپر لائے اورنافذ کئے گئے ہیں