مشرف شمسی
ممبئی: ای وی ایم ہٹاؤ کے نعرے زور پکڑتے جا رہے ہیں لیکن الیکشن کمیشن اس بابت حزب اختلاف کی سیاسی جماعتوں سے بات کرنے کے لئے تیار نہیں ہے ۔آج کی تاریخ میں ای وی ایم سے الیکشن صرف بی جے پی اور اسکی اتحادی جماعت ہی چاہتی ہیں ۔حزب اختلاف مضبوط انڈیا اتحاد بنا بھی لے اور بی جے پی کے سامنے ایک متحدہ امیدوار بھی لوک سبھا چناو میں کھڑا کر دے تب بھی ای وی ایم کو ہیک کر کے انتخابی نتائج میں تبدیلی کی جا سکتی ہے ۔کانگریس اور دوسری سیاسی جماعتوں سمیت کئی سماجی تنظیموں کو پہلے سے شک رہا ہے کہ بی جے پی ای وی ایم کے سہارے چناو جیت رہی ہے ۔یہ شک یقین میں تب تبدیل ہوتا جا رہا ہے جب مدھیہ پردیش میں ایک امیدوار کو ایک بھی ووٹ نہیں ملا۔اس امیدوار کا کہنا ہے کہ مان لیں میرے گھر سے مُجھے کوئی ووٹ نہیں ملا ہو لیکن میں نے اپنا ووٹ خود کو تو دیا ہوگا۔عام آدمی پارٹی پہلے سے ہی یعنی 2018 سے ہی ای وی ایم پر سوال کھڑے کر رہی ہے ۔عام آدمی پارٹی کے ایک ایم ایل اے سوربھ بھاردواج نے دلّی اسمبلی میں سب کے سامنےای وی ایم ہیک کر بتایا تھا لیکن اب سے پہلے تک کانگریس اور سماج وادی پارٹی جیسی پارٹیاں ای وی ایم پر خاموش ہی رہا کرتی تھیں ۔لیکن مدھیہ پردیش ،راجستھان اور چھتیس گڑھ میں کانگریس کی شکست کے بعد کانگریس ،سماجوادی پارٹی بلکہ پوری انڈیا اتحاد ای وی ایم سے چناو پر سوال کھڑے کر رہی ہے اور الیکشن کمیشن سے بیلٹ پیپر سے چناو کرانے کا مطالبہ کر رہی ہیں ۔لیکن الیکشن کمیشن حزب اختلاف کی باتوں کو سننے تک سے انکار کر رہی ہیں ۔ویسے چیف الیکشن کمشنر کی تقرری جس طرح سے جلدبازی میں کی گئی اس پر سپریم کورٹ نے بھی سوال کھڑے کئے تھے۔پھر سپریم کورٹ نے اپنے ایک فیصلے میں کہا تھا کہ الیکشن کمشنر کی تقرری وزیر اعظم ،لوک سبھا میں حزب اختلاف کا رہنماء اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کا پینل کرے ۔لیکن موجودہ مرکزی سرکار نے سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف جا کر پارلیمنٹ میں ایک قانون بنایا ہے کہ الیکشن کمشنر کی تقرری میں چیف جسٹس کا کوئ کردار نہیں ہوگا بلکہ الیکشن کمشنر کی تقرری وزیر اعظم ،لوک سبھا میں حزب اختلاف کے رہنما اور وزیر اعظم کے ذریعے تقرر کیے ایک کیبنیٹ وزیر کا پینل کریگا۔مطلب صاف ہے کہ الیکشن کمشنر کی تقرری میں حکمران جماعت کی جانب سے دو اور ایک حزب اختلاف کے رہنما ہونگے۔اس سے صاف ہے کہ جسے حکمران جماعت یا سرکار چاہے گی اُسے الیکشن کمشنر یا چیف الیکشن کمشنر بنایا جائے گا ۔اس طرح سے الیکشن کمیشن کی آزادانہ حثیت پر بھی حزب اختلاف کی جانب سےسوال اٹھائے جا رہے ہیں ۔
الیکشن کمیشن کا کام آزادانہ طریقے سے الیکشن کرانا ہوتا ہے ۔لیکن سرکار کے ذریعے تقرر الیکشن کمیشن سرکار کی چاہت کے خلاف جا کر کام کرے گی اس میں شبہ ہے۔یہی وجہ ہے کہ الیکشن کمیشن سرکار کے اشارے پر ای وی ایم پر کوئی بھی گفتگو حزب اختلاف سے نہیں کرنا چاہتے ہیں ۔جبکہ حزب اختلاف بیلٹ پیپر سے الیکشن نہ بھی ہو تو ای وی ایم کے وی وی پیٹ کی گنتی چاہتے ہیں لیکن الیکشن کمیشن اس کے لیے بھی تیار نہیں ہے ۔
الیکشن میں جس طرح سے حکمران جماعت ایک اسٹیک ہولڈر ہوتا ہے اسی طرح حزب اختلاف بھی برابر کا اسٹیک ہولڈرز ہوتے ہیں اور سب کی متفقہ رائے سے ہی الیکشن کمیشن الیکشن کے طریقے پر فیصلہ کرتی تو بہتر ہوتا اور جمہوریت مضبوط ہوتی۔لیکن موجودہ الیکشن کمیشن جس طرح سے پچھلے چناو کے دوران حکمران جماعت کی جانب سےدھجیاں اُڑتی ہوئی کوڈ آف کنڈکٹ کو نظر انداز کیا جاتا ہے وہ الیکشن کے صاف و شفاف ہونے پڑ سوال اٹھاتا ہے اور جمہوریت کو کمزور کرتا ہے ۔الیکشن کمیشن کے جانب دارانہ رویہ سے ملک میں ڈکٹیٹر شپ بڑھیگی ۔