مشرف شمسی
اسرائیل کو اس بات کا گمان ہے کہ اُسے کسی بھی طرح شکست نہیں دی جاسکتی ہے کیونکہ مشرقی وسطیٰ میں وہ تنہا ملک ہے جس کے پاس نیوکلیئر اسلحے ہیں۔حالانکہ اسرائیل نے بھارت ،پاکستان اور شمالی کوریا کی طرح کھلے عام ایٹمی تجربہ نہیں کر رکھا ہے لیکن دنیا کے تقریباََ سبھی ممالک اس بات سے اتفاق رائے رکھتے ہیں کہ اسرائیل کے پاس نیوکلیئر بم ہے۔اسی نیوکلیئر طاقت کی وجہ سے اسرائیل کے وزیر اعظم نیتن یاہو اس خمار میں تھے کہ اُنہیں مشرقی وسطیٰ میں سبھی ممالک اُنکے خلاف ایک ہو بھی جائیں تب بھی اُنہیں شکست نہیں دی جاسکتی ہے ۔اسرائیل کے حق میں ایک بات اور جاتی ہے کہ اس کی ہوائی قوت مغربی ایشیا میں سب سے زیادہ بہتر ہے اور ساتھ ہی ملک کی حفاظت میں لگے ٹیکنالوجی وہ دوسرے ہمسایہ ممالک سے برتر ہیں ۔حماس اور حزب اللہ جیسی مزاحمتی تنظیموں نے میزائل اور ڈرون سے اسرائیل کے اندر حملے کر کے بتا دیا ہے کہ وہ بھی اسرائیل سے ٹیکنالوجی کے معاملے میں برتر نہیں ہے تو کم بھی نہیں ہیں ۔حزب اللہ کا ڈرون اسرائیل کے اندر گھس کر ایک ایک اہم فوجی ٹھکانوں کی نہ صرف پتہ لگا لیتا ہے بلکہ فوٹو کھینچ کر دنیا کے سامنے ثبوت بھی پیش کرتا ہے اور اسرائیل کا دفاعی نظام سوتا ہوا ره جاتا ہے ۔دس مہینے کی اسرائیل – حماس جنگ میں ایک طاقت ور اسرائیل 45 کیلو میٹر کے غزہ میں
مزاحمت کو ختم نہیں کر سکی ہے ۔فوجی اعتبار سے دیکھا جائے تو غزہ میں اسرائیل کو مزاحمتی تنظیموں سے زیادہ نقصان اٹھانا پڑا ہے ۔یہ اور بات ہے کہ اسرائیل غزہ میں عام لوگوں کو قتل کر دنیا کو باور کرا رہا ہے کہ وہ جیت رہا ہے ۔اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ غزہ کے عام لوگوں کو اس جنگ کی وجہ سے بہت ہی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے لیکن اپنی جان و مال کی قربانی دینے کے باوجود غزہ میں اب بھی مزاحمتی تنظیموں کے خلاف کسی طرح کی بغاوت نہیں ہوئی ہے اور ان کے حوصلے بلند ہیں۔یہ مزاحمتی تنظیموں کی سب سے بڑی کامیابی ہے ۔اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اسرائیل نے ایران میں اسماعیل ہانیہ اور بیروت میں حزب اللہ کمانڈر کا قتل کر کچھ بڑی کامیابی ضرور حاصل کی ہے لیکن غزہ میں حماس کے ایک بھی بڑے رہنماء تک پہنچنے میں اسرائیل ناکام رہا ہے۔حالانکہ کچھ دنوں پہلے اسرائیل نے کہا تھا کہ غزہ میں اس نے حماس کمانڈر محمد دیف کا قتل کر دیا ہے لیکن حماس نے اس دعوے کی پر زور تردید کی ہے ۔
اسرائیل کا فوجی انحصار ٹیکنالوجی پر ہے۔لیکن سبھی طرح کی اعلی ٹیکنالوجی رکھنے کے باوجود اسرائیل غزہ میں بنے زیادہ تر سرنگوں تک نہیں پہنچ پا رہی ہے ۔کہا جاتا ہے کہ اب بھی اسی فیصدی مزاحمت کاروں کی سرنگیں اسرائیل کی پہنچ سے دور ہے۔
دوسری جانب حزب اللہ مسلسل اسرائیل پر حملے کر رہا ہے اور اسرائیل بھی جواب میں ہوائی حملے کر رہا ہے ۔حزب اللہ نے میزائل شہر کی نمائش کر صرف اسرائیل کو نہیں پوری دنیا کو بھونچکا کر دیا ہے ۔یہ شہر صرف اسلحے کی حفاظت یا اُسے بنانے کیلئے نہیں بسایا گیا ہے بلکہ اس شہر پر نیوکلیئر حملے کا اثر بھی نہیں ہو سکتا ہے ایسا دعویٰ حزب اللہ نے کیا ہے۔زیر زمین یہ شہر کہاں تک پھیلا ہوا ہے کسی کو معلوم نہیں ہے ۔کہا تو یہ جا رہا ہے کہ زیر زمین سرنگیں بیروت سے غزہ تک جاتی ہیں ۔یقیناً درمیان میں اسرائیل آتا ہے ۔یہ سچ بھی معلوم پڑتا ہے کہ جب اسرائیل کی افواج نے رفع کاریڈور پر اپنا پہرہ بیٹھا دیا ہے تو بھی غزہ میں مزاحمت کم نہیں ہوئی ہے بلکہ مزاحمت اور تیز ہو گئی ہے۔
سات اکتوبر 2023 کو اسرائیل پر حملھ ایک منصوبہ بند طریقے سے کیا گیا تھا ۔اس حملے میں غزہ کے لوگوں کا کیا نقصان ہوگا یہ پہلے سے تخمینہ لگایا جا چکا تھا ۔اس جنگ کو زیادہ سے زیادہ لمبا کیا جائے اسکی منصوبہ بندی پہلے سے کی گئی تھی ۔ساتھ ہی اس جنگ کو مرحلے وار لڑا جا سکے تاکہ اسرائیلی افواج کو پوری طرح سے تھکا دیا جائے۔دوسری جانب حزب اللہ لبنان اور شام کے مقبوضہ علاقوں میں بسے اسرائیلی شہریوں پر بمباری کر اُن علاقے سے سیٹلیر کو بھاگنے پر مجبور کر دیا جائے ۔اس کے علاوہ مغربی کنارے میں مزاحمت شروع کر دی جائے تاکہ اس علاقے سے بھی یہودی سیٹلر کو اپنے گھر کو چھوڑ کر بھاگنے پر مجبور کیا جا سکے۔مزاحمتی قوتیں اپنے منصوبے میں اب تک کامیاب نظر آ رہی ہے ۔اُن تنظیموں نے اسرائیل کو چہار جانب سے گھیر لیا ہے اور اب اسرائیل کے سامنے جنگ بندی کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے ۔ساتھ ہی اسرائیل کے اندر بھی وزیر اعظم نیتن یاہو پر دباؤ بڑھتا جا رہا ہے کہ جلد سے جلد حماس سے جنگ بندی معاہدہ کرے اور اپنے قیدیوں کو واپس لائے ۔
مزاحمتی تنظیموں نے اسرائیل کو جنگ میں اس طرح پھنسایا ہے کہ اُسے یہ سمجھ ھی نہیں آ رہا ہے کہ وہ جیت رہا ہے یا ہار رہا ہے۔لیکِن امریکہ کو پتہ ہے کہ اسرائیل بکھر گیا تو اسکی عزت بھی خاک میں مل جائے گی اور اسے بھی مشرقی وسطیٰ سے اپنا بوریا بستر باندھنا پڑ جائے گا ۔اسلئے اسرائیل پر دباؤ بنا کر نیتن یاہو کو جنگ بندی پر راضی کیا جا رہا ہے اور اُمید ہے کہ مزاحمتی تنظیمیں بھی جنگ بندی کے لئے مان جائے گی لیکن مزاحمتی تنظیمیں جنگ اُسی وقت ختم کرنے پر راضی ہوگی جب تک غزہ کے لوگوں کی قربانی کا صلہ نہیں مل جائے۔یعنی غزہ پوری طرح اسرائیلی افواج سے پاک ہو اور دو ریاستی فارمولے کی جانب قدم آگے بڑھنے کا یقین دھانی کرائی جائے۔لیکِن اس شرط پر جنگ ختم ہونے کا مطلب ہے اسرائیل کی شکست۔یہی وجہ ہے کہ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو جنگ بندی نہیں چاہتے ہیں ۔
جنگ بندی نہیں چاہتے نیتن یاہو
Leave a comment
Leave a comment