مولانا ارشد مدنی کی ہدایت پر تسنیم جہاں قتل کیس میں انصاف کیلئے جمعیۃعلماء ہند نے سپریم کورٹ سے کیا تھا رجوع
نئی دہلی(نمائندہ) اترا کھنڈ کے رودرپور کی رہنے والی مسلم نرس کے ساتھ اجتماعی درندگی اور پھر قتل معاملہ اب سپریم کورٹ پہنچ گیا ہے مولانا ارشد مدنی کے تعاون سے متوفیہ کی بیٹی اور بہن نے سپریم کورٹ آف انڈیا میں ایک پٹیشن داخل کرکے چیف جسٹس آف انڈیا سے اس سنگیں قتل معاملے کی سی بی آئی انکوائری اور متاثرین کو معاوضہ دیئے جانے کی درخواست کی ہے ۔ آج اس قتل معاملہ کی سپریم کورٹ میں سماعت ہونی ہے چیف جسٹس آف انڈیا کی سربراہی میں تین رکنی بینچ اس معاملے کی سنوائی کرے گی۔ مِلی اطلاعات کے مطابق چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندر چوڑ جسٹس جے بی پاردی والا اور جسٹس منوج مشراء اس مقدمہ کی سماعت کریں گے۔
عیاں رہے کہ اترا کھنڈ کے رودرپور کے ایک نجی ہسپتال میں نرس کی ڈیوٹی کرنے والی تیس سالہ تسنیم جہاں جو ولاس پور ڈبڈبا میں واقع بسنددھرا انکلیو کی رہنے والی تھی 30 جولائی کے روز معمول کے مطابق وہ ڈیوٹی سے گھر نہ ا کر غائب ہو گئی پریشان گھر والوں نے اس کی گمشدگی کی تحریر پولیس کو دی جس کے بعد پولیس نے 31 جولائی کو گمشدگی کا ایک مقدمہ درج کر کے تسنیم جہاں کی تلاش شروع کر دی اور بعد ازاں اٹھ اگست کے روز تسنیم کی تعفن الودہ لاش پولیس نے اسی بسنددھرا انکلیو سے کچھ ہی دوری پر واقع ایک جھاڑی سے برامد کرنے کا دعویٰ کیا اور بعد ازاں پولیس نے پورے معاملے کی لیپا پوتی کرتے ہوئے بریلی کے رہنے والے دھرمیندر نامی ایک شخص کو اس معاملے میں گرفتار کر لیا۔ ذرائع سے ملی اطلاعت کے مطابق تسنیم کو اغوا کر کے اس کے ساتھ کئی دنوں تک اجتماعی ابرو ریزی کی گئی اس کے ساتھ وحشیانہ درندگی کی گئی اور بعد ازاں اسکا نربھیا سے بھی برا حشر کر کے لاش کو پھیک دیا گیا۔ سپریم کورٹ آف انڈیا میں داخل پٹیشن کو سینئر ایڈوکیٹ نتیا راما کرشنن کے مشورہ سے ایڈوکیٹ صارم نوید اور ایڈوکیٹ شاہد ندیم نے تیار کیا ہے جبکہ ایڈوکیٹ آن ریکارڈ سوگندھا آنندنے ہیں پٹیشن میں عدالت سے درخواست کی گئی ہے کہ وہ ایف آئی آر نمبر 406/2024 رودر پور پولس اسٹیشن کی مرکزی تفتیشی ایجنسی سے آزادانہ تحقیقات کرائے نیز متوفیہ کی کمسن بچی کو معاوضہ دینے کے لئے ریاستی حکومت کو حکم جاری کرے عدالت سے قومی سطح پر میڈیکل اسٹاف کی حفاظت کے لئے قومی سطح پر گائیڈلائنس تیار کئے جانے کی بھی درخواست کی گئی ہے۔ پٹیشن میں یونین آف انڈیا، منسٹری آف چائلڈ اور وومن اور اسٹیٹ آف اتراکھنڈ کو فریق بنایا گیا ہے آئین ہند کے آرٹیکل 32 کے تحت داخل پٹیشن میں تحریر کیا گیا ہے کہ 30 جولائی کو اسپتال سے واپس آتے ہوئے متوفیہ لاپتہ ہوگئی تھی جس کی رپورٹ پولس میں درج کرائی گئی لیکن پولس نے ان کی رپورٹ پر کوئی کارروائی نہیں کی بلکہ 8 جولائی کو اس وقت کارروائی شروع کی جب ایک سڑا گلا انسانی ڈھانچہ بر آمد ہوا۔لاش کی شناخت اس کے پاس سے بر آمد موبائل کی وجہ سے ہوئی اور پھر پولس نے ایک ایسے شخص کو گرفتار کرنے کااعلان کیا جو پہلے سے پولس تحویل میں تھا اور جو نشے کا عادی ہے پٹیشن میں مزید تحریر کیا گیا کہ پولس نے ان کی شکایت پر کئی دنوں تک کارروائی نہیں کی اور انہیں پولس اسٹیشن کے درجنوں چکر لگانے پڑے پولس نے عوامی غصہ اور احتجاج کے بعد ایف آئی آر درج کی ابتک کی پولس کی کارروائی مشکوک ہے لہذا عدالت کو اس مقدمہ کی تفتیش مرکزی تفتیشی ایجنسی سے کرانا چاہئے تاکہ ہمیں انصاف مل سکے پولس کی جانب سے درج کی گئی ایف آئی آر میں یہ کہیں درج نہیں کیا گیا ہے کہ انہیں متوفیہ کی لاش کا ڈھانچہ کیسے ملا جبکہ متوفیہ کے گھر والے متوفیہ کو ایک ہفتہ سے زائد عرصے سے اسی جگہ تلاش کررہے تھے جہاں سے پولس نے لاش ملنے کا دعوی کیا ہے پٹیشن میں مزید تحریرہے کہ پوسٹ مارٹم رپوٹ میں بھی موت کس وجہ سے ہوئی یہ واضح نہیں ہے پٹیشن میں مزید تحریر کیا گیا ہے کہ مقامی پولس کی جانب سے کی جانے والی تفتیش جس رخ پر جارہی ہے اس سے انصاف ملنے کی امید نظر نہیں آرہی ہے پولس نے محض عوامی غصہ کو دبانے کے لئے ایک شخص کو گرفتار کرنے کا دعوی کیا ہے جبکہ یہ ایک منظم سازش کے تحت اجتماعی عصمت دری کے بعد بے رحمی سے قتل کئے جانے کا معاملہ ہے۔