مفتی مبارک حسین مصباحی
(استاذ جامعہ اشرفیہ و چیف ایڈیٹر ماہ نامہ اشرفیہ مبارکپور)
زبدۃ العارفین، عمدۃ الواصلین غوث اعظم سید عبد القادر جیلانی بغدادی قدس سرہ العزیز علم و روحانیت کے تاجدار ہیں۔ آپ کی کنیت ابو محمد اور القاب محی الدین ، محبوبِ سبحانی اور غوث ثقلین ہیں۔ آپ نجیب الطرفین سید ہیں والد ماجد پیکرِ زہد و تقویٰ سید ابو صالح موسیٰ جنگی دوست قسسہ تھے اور والدہ محترمہ ام الخیر فاطمہ تھیں۔ آپ کا لقب امۃ الجبار تھا۔ آپ کی جاے ولادت اکثر روایات کے مطابق قصبہ نیف، علاقہ گیلان بلادِ فارس ہے۔ فرش گیتی پر آپ کا ظہور یکم رمضان المبارک ۴۷۰ھ/۱۷ مارچ ۱۰۷۸ء میں ہوا، وصال پر ملال بغداد شریف میں گیارہ ربیع الثانی ۵۶۱ھ/۱۲ فروری ۱۱۶۶ء میں مغرب کی نماز کے بعد ہوا۔ عمر لگ بھگ ۹۱ برس تھی۔ جنازے کی نماز میں حیرت انگیز تعداد میں شیدائیوں کامجمع تھا، امامت کے فرائض آپ کے لختِ جگر حضرت سید سیف الدین عبد الوہاب قادری نے انجام دیے۔ خانقاہ عالیہ قادریہ میں انوار و تجلیات کی مسلسل بارش ہوتی رہتی ہے، دنیا بھر کے مسلمان وہاں حاضری کی سعادت حاصل کرتے رہتےہیں، اپنی مرادوں کے دامنوں کو بھر بھر کر لے جاتے ہیں۔ ہمیں بھی جمادی الاخریٰ 1441ھ /فروری ۲۰۲۰ء کے چند آخری ایام میں حاضری کا شرف حاصل ہوا ہم نے جی بھر کے ان کے دربار میں بھیک مانگی، ہماری دعا ہے مولا کریم ہم سب کو بار بار حاضری کی سعادتوں سے سرفراز فرمائے۔ آمین۔جشن عید میلاد النبی ﷺ کی مبارک مجلسیں ہوں یا گیارہویں شریف کی عرفانی محفلیں، بزرگانِ دین کے نورانی اعراس ہوں یا مرحومین کے ایصال کی تعزیتی تقریبات، اسی طرح دنیا سے الوداع کہنے والوں کے لیے فاتحہ، تیجے ، دسویں، بیسویں، چالیسویں اور برسی وغیرہ کے اہتمامات یہ سب حق اور سب کے لیے اجر و ثواب کے باعث ہیں۔ یہ مبارک رسوم عہدِ رسالت مآب ﷺ سے آج تک عالمِ اسلام میں ہوتی رہی ہیں۔ مختلف ممالک اور مختلف علاقوں میں ان کی نوعیتیں اور انداز جدا جدا ہوتے ہیں، عہدِ حاضر میں بھی دنیا بھر کے خوش عقیدہ مسلمان بڑے ذوق سے اہتمام کرتے ہیں۔انڈونیشیا، ہند وپاک، بنگلہ دیش، ترکی، یمن، شام، عراق، ایران، برونئی، چین، روس اور یورپی ممالک میں بڑی مسلم آبادی ہے۔ اسی طرح عرب ممالک میں مسلم اکثریت ہے ۔ ۵۷ ممالک کی باگ ڈور مسلم حکمرانوں کے ہاتھوں میں ہے۔ مختلف طریقوں سے اپنی مسرت انگیز طبیعتوں کے پیش نظر مجالس منعقد کرتے ہیں، علاقائی انداز کے کھانے اور مشروبات تیار کرتے ہیں، حسبِ استطاعت مٹھائیوں اور تبرکات کا اہتمام کرتے ہیں۔ تقریبات کی مناسبت سے میلاد النبی ﷺ کی محفلوں کا انفرادی یا اجتماعی طور پر انعقاد کرتے ہیں .
*گیارہویں شریف کے فضائل*
دلائل و شواہد سے یہ ثابت ہے کہ رسول کریم ﷺ،دیگرانبیاے کرام،اولیاے عظام اور عام مسلمانوں کے لیے استغفار اور اذکار و اعمال سے انھیں ایصال ثواب کرنا نہ صرف درست و جائز بلکہ مستحسن اور نفع بخش ہے۔ اب آپ ذرا ٹھنڈے دل سے غور فرمائیں کہ حضور غوث اعظم سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی بغدادی جو اولیاے کرام میں اعلیٰ اور بلند ترین مقام رکھتے ہیں ،قیامت تک کسی بھی سلسلے کی ولایت اور معرفت ان ہی کے در سے تقسیم ہوتی ہے ۔ آپ ہی کا ارشاد گرامی ہے ” قَدَمِيْ هٰذِهِ عَلٰى رَقَبَةِ كُلِّ وَلِيِّ اللهِ “میرا یہ قدم اللہ تعالیٰ کے ہر ولی کی گردن پر ہے۔ آپ کا یہ ارشاد بحکمِ الٰہی جل و علا اور رسول کریم ﷺ کے فیضان سے ہوا تھا۔ جس ولی نے گردن جھکا دی وہ کامیاب اور فائزالمرام ہو گیا، معاملہ صرف سامنے جلوہ گر اولیاے کرام کا نہیں تھا بلکہ دنیا کے کسی بھی گوشے میں کوئی اللہ تعالی کا ولی ہو سب نے گردنیں جھکادیں ،خواجۂ خواجگان سلطان الہند نجران کی ایک پہاڑی پر مراقبے میں تھے ،آپ نے سے نہ صرف گردن جھکادی بلکہ انتہائی ادب سے عرض کیا ؛اے شیخ گردن نہیں، بلکہ فرمایا: ” بَل عَليٰ رَاسی وَعَینِی “ بلکہ میرا سر اور آنکھوں کی پتلیاں حاضر ہیں ،اسی لیے حضور مفتی اعظم ہند نے بڑے احترام سے اپنی قلبی آرزو کا اظہار کیا ہے
یہ دل یہ جگر ہے یہ آنکھیں یہ سر ہے جہاں چاہو رکھو قدم غوث اعظم
بلا شبہہ غوث اعظم کا علمی مقام اور روحانی منصب بہت بڑا ہے، آپ آج بھی اپنی قبر سے روحانی تصرفات فرما رہے ہیں اور انشاء اللہ تعالیٰ تا قیامت فرماتے رہیں گے اور قبر وحشرمیں بھی ان کے نانا جان شفیع المذنبین کے سر اقدس پر شفاعت کبریٰ کا تاج رکھا ہوگا ،یہ امت میدان حشر میں یکے بعد دیگرے دیگر انبیائے کرام کی بارگاہوں میں حاضر ہو گی مگر ہر دربار نبوت پر ایک ہی اعلان سنیں گے”إذهبو إلى غيري“ ہمارے علاوہ کسی اور کے پاس جاؤ مگر جب رحمۃ للعالمین ﷺ کا سامنا ہوگا تو آپ فرمائیں گے ؛آؤ، آؤ، ہم آپ ہی کے انتظار میں ہیں۔ ایک سچے عاشق نے کتنی بلیغ ترجمانی کی ہے
کہیں گے اور نبی اذھبو الی غیری میرے حضور کے لب پر انا لھا ہوگا
ایسا ہوا کیوں ؟پہلے ہی امت شفاعت کبریٰ کے تاجدار کی بارگاہ میں حاضر کیوں نہیں ہوئی ؟اس کا جواب ایک عاشق رسول ﷺنے اپنے انداز میں دیا ہے
فقط اتنا سبب ہے انعقاد بزم محشر کا تمہاری شان محبوبی دکھائی جانے والی ہے
آقا کریم ﷺ، اہلِ بیت اطہار اور علما و مشائخ بھی شفاعت فرمائیں گے، ہم اس تفصیل کو کسی اور موقع کے لیے چھوڑتے ہیں۔
اولیاے کرام کے سروں کے تاج ، محبوب سبحانی غوث اعظم جیلانی کا وصال 11 ربیع الثانی بروز پیر بغداد مقدس میں ہوا ،بعض نے ۸؍ 10؍ 14 اور 17 ربیع الثانی کا بھی قول کیا ہے مگر 11 ربیع الثانی پر جمہورکا اتفاق ہے۔ بلاشبہ یہ حق اور سچ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ولیوں پر موت طاری ہوتی ہے مگر برائے نام وہ دنیا سے آخرت کی جانب منتقل ہوتے ہیں۔ امام رازی نے اپنی تفسیر میں لکھا ہے:
اولیاء اللہ مرتے نہیں بلکہ وہ ایک گھر سے دوسرے گھر منتقل ہوتے ہیں۔ (تفسیر کبیر، ج:۲، ص:۹۸)
سیدنا سرکار غوث اعظم اپنی حیات اور اس کے بعد بھی مسلسل تصرفات فرما رہے ہیں، جس طرح انبیاے کرام میں سب سے زیادہ معجزات کا ظہور نبی آخر الزماں ﷺ سے ہوا ، آپ تو سراپا معجزہ بن کر صفحۂ ہستی پر جلوہ گر ہوئے تھے آج بھی آپ کے معجزات ہمارے دلوں اور گھروں میں ظہور پذیر ہیں، اسی طرح اولیاے کرام میں سب سے زیادہ کرامات اور تصرفات غوث اعظم سے ظاہر ہوئے اور ہورہے ہیں۔ اب ان کی بارگاہ میں ایصال ثواب کے لیے ہمیں غور کرناہماری ایمانی کمزوری ہے۔ قرآن، احادیث اور بزرگان دین کے بےشمار احکام اور معمولات ہم سب کے سامنے ہیں۔منکرین کو اپنے ایمان و عقیدہ کے بارے میں ہزار بار غور کرنا چاہیے کہ کہیں ان میں کوئی نقصان تو نہیں ہے ، سرکار غوث اعظم نے ارشاد فرمایا :
ترجمہ جو کوئی مجھ سے مصیبت میں فریاد کرے یا مجھ کو پکارے تو میں اس کی مصیبت کو دور کروں گا اور جو کوئی میرے وسِیلہ سے اللہ تعالیٰ سے اپنی حاجت طلب کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس کی حاجت کو پورا کر دے گا ۔(قلائد الجواہر ،ص:۳۶، اخبار الاخیار فارسی ص:۲۶، تفریح الخاطر، ص:۵۶، سفینۃ الاولیا، ص:۷۳)
اور آپ ارشاد فرماتے ہیں:
ترجمہ : مجھے میرے پروردگار اور اس کے جلال کی قسم، بے شک میرا ہاتھ اپنے مریدوں پر ایسا ہے جس طرح آسمان زمین پر چھایا ہوا ہے۔(بہجۃ الاسرار، ص:۱۰۰، قلائد الجواہر، ص:۱۵)
اور ایک جگہ یوں ارشاد فرمایا :
ترجمہ: اگر میرا مرید مشرق میں ہو اور اس کا ستر کھل جائے اور میں مغرب میں رہوں تو میں اس کا ستر ڈھانپ دوں گا۔
(قلائد الجواہر، ص:۱۶، بہجۃ الاسرار، ص:۹۹)
اسیروں کے مشکل کشا غوث اعظم فقیروں کے حاجت روا غوث اعظم
ترا نام لے کر جو نعرہ لگایا مہم سر ہوئی ایک دم غوث اعظم
محقق علی الاطلاق شیخ عبدالحق محدث دہلوی قدس سرہ فرماتے ہیں :
”جان لیں کہ [حضرت غوث اعظم ]شیخ سے مدد مانگنا حضور ﷺ سے مدد مانگنا ہے کیوں کہ یہ ان کے نائب اور جانشین ہیں اور اس عقیدے کو پورے یقین کے ساتھ اپنے پلےسے باندھ لیں۔“( مجموعات المکاتیب والمرسل، ص:۲۵۰)
شیخ عبدالحق محدث دہلوی تحریر فرماتے ہیں :
بے شک ہمارے ملک میں آج کل گیارہویں تاریخ مشہور ہے اور یہی تاریخ ہمارے ہندوستانی مشائخ اور آپ کی نسل پاک میں مشہور ہے۔
(ما ثبت بالسنہ، عربی، ص:۶۸)
شیخ امان اللہ پانی پتی کے حالات میں محقق علی الاطلاق شیخ عبد الحق محدث دہلوی فرماتے ہیں:
”کہ یازدہم ماہ ربیع الاخر عرس غوث الثقلین کرد۔“(اخبار الاخیار، ص:۲۴۲، مطبوعہ)
ماہ ربیع الاخر کی گیارہویں تاریخ کو حضرت غوث الثقلین کا عرس مبارک کیا کرتے تھے۔
گیارہویں شریف اور ختم غوثیہ کرنا:
حضرت مولانا مفتی ارشاد حسین مجددی رام پوری اپنے فتوے میں تحریر فرماتے ہیں:
حضرت غوث الثقلین کی فاتحہ گیارہ تاریخ کو کرنا اور ختم غوثیہ اس جملہ ” يَا شَيْخ عبد القادر جيلاني شيئًا لله“ کے ساتھ پڑھنا سب جائز ہے اور بطور تبرک اور عمل (ختم غوثیہ) کے پڑھنے میں قطعاً احتمال شرک و کفر نہیں۔ (فتاویٰ ارشادیہ، ج:اول، ص:۵۵)
ختم غوثیہ ہر کام کے لیے مجرب ہے، اس کے پڑھنے کا طریقہ یہ ہے کہ پہلے دو رکعت نماز قضاے حاجات پورے اخلاص کے ساتھ پڑھے، ہر رکعت میں بعد الحمد ۱۱؍ بار سورۂ اخلاص پڑھے۔ بعدِ سلام درودِ غوثیہ: اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلىٰ سَيِّدِنَا مُحَمَّدٍ مَّعْدِنِ الْجُوْدِ وَالْكَرَمِ وَعَلىٰ اٰلِ سَيِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّ بَارِكْ وَسَلِّمْ۔ ۱۱۱ بار۔ کلمۂ طیبہ سورهٔ اخلاص ۱۱۱ بار، يَا شَيْخ عبد القادر جيلاني شيئًا لله ۱۱۱ بار۔پھر یہ اسما گیارہ بار پڑھے ”یا شیخ محی الدین یا ولی یا سید یا سلطان یا بادشاہ یا مخدوم یا مولانا یا خواجہ یا محبوب یا محب الفقراء والمساکین یا غوث الثقلین اغثنی امدانی فی قضاء حاجتی اشفع یا ولی اللہ کن واسطہ بینی وبین اللہ۔ پھر یا سید محی الدین اغثنی ۱۱۱ بار۔
طریقۂ فاتحہ: پھر اس ترتیب سے فاتحہ پڑھے: اول ۱۱ بار درود غوثیہ پھر ۷ بار الحمد شریف، پھر ۷ بار سورۂ اخلاص، پھر ۱۱ بار درود غوثیہ شریف پڑھے۔ اور یہ عمل بروز اتوار بعد طلوعِ آفتاب کرے یا شبِ جمعہ میں پاک و صاف جگہ سفید چاندنی بچھائے اور اس پر حسبِ استطاعت ۱۱ اشرفی یا ۱۱ آنہ کی نیاز یعنی حلوہ بنا کر پاس رکھے اور خوشبو و عطر وغیرہ ملے پھر پڑھنے میں مشغول ہو اور جس ترتیب سے اوپر بتایا ہے فاتحہ دے اور پھر اپنے مقصد کے لیے دعا کرے۔ (مولانا ارشاد حسین مجددی رام پوری، ص:۷۹، ۸۰)
سچ اور حق ہے کہ حضور غوث اعظم سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی بغدادی قدس سرہٗ ہر گیارہ تاریخ کو حضور سرور عالم ﷺ کی فاتحہ اور ایصال ثواب کا اہتمام فرماتے تھے، آپ کی روحانی شخصیت عظیم ترین تھی، آپ غوثیت کبریٰ کے مقام پر فائز تھے، ان سے بے شمار کرامات کا ظہور ہوا،آپ کے خطاب کی محفل میں ستر ہزار سے زیادہ کا مجمع ہوتا، آپ کے روحانی اسرار و رموز سننے کے لیے دنیا بھر سے اولیاے کرام اور صالحین جلوہ گر ہو جاتے تھے۔ بڑی تعداد میں فرشتےےاور مسلم جنات بھی حاضری کا شرف حاصل کرتے تھے آپ جب قال سے حال کی طرف رخ کرتے تو مجمع وجد و کیف میں ڈوب جاتا ،کچھ عارفین کپڑے پھاڑ لیتے، کچھ ظاہری ہوش و خرد کھو دیتے، کچھ جنگلات اور پہاڑوں کا رخ کرتے، اور کتنے اللہ تعالی کے نیک بندے معرفت کی تاب نہ لاکر اسی مقام پر جان دے دیتے۔ سرکار غوث اعظم نےاپنے روحانی تصرفات سےکتنے ہی ڈوبتے جہازوں کو کنارے لگادیا، کتنے ڈاکوؤں اور چوروں سے لوٹا ہوا مال واپس دلادیا اور کتنے پریشان حال تاجروں اور حالات کے ماروں کو سہارا دے دیا، آپ کے فیضان سے کتنے کفروشرک میں ڈوبے ہوئے دل ایمان کی حلاوت سے سرشار ہو گئے اور کتنے عیسائیوں اور یہودیوں کو عشق و ایمان کی سرمدی نعمتوں سے مالا مال فرماد یا، کتنے مردوں کو اللہ تعالیٰ سے زندگی دلائی اور کتنے اولاد سے مایوس حضرات کو اولاد سے سرفراز کیا۔
مزرعِ چشت و بخارا و عراق و اجمیر کون سی کشت پہ برسا نہیں جھالا تیرا
اب یہاں ایک سوال کیا جاتا ہے کہ اہلِ سنت و جماعت بارہویں شریف، عاشورہ محرم اور گیارہویں شریف وغیرہ میں دن اور اوقات متعین کرتے ہیں اس حوالے سے بھی احادیث میں دلائل ہیں اور سلف صالحین کےاقوال اور معمولات ہیں، ہم ذیل میں چند حدیثیں پیش کرتے ہیں:
حدیث شریف میں ہے :سب دنوں سے افضل دن جمعہ کا ہے ۔ (ابو داؤد شریف، ص:۱۰۵)
سیدہ عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام پیر اور جمعرات کو روزہ رکھتے تھے۔ (نسائی، ص:۳۲۸)
اور فرمایا: پیر اور جمعہ کو اعمال اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں پیش ہوتے ہیں۔ (ترمذی، ج:۲، ص:۹۳)
اور غزوۂ تبوک کے لیے حضور نبی کریم ﷺ نے جمعرات کا سفر پسند فرمایا۔ (مشکوٰۃ شریف، ص:۳۳۸)
سیدنا شیخ عبد القادر جیلانی چاند کی گیارہ تاریخ کو سید الانبیا، محبوب کبریا ﷺ کی بارگاہ بیکس پناہ میں ایصال ثواب کیا کرتے تھے اور لوگوں کو ایصالِ ثواب کی تلقین کیا کرتے تھے، آپ فرماتے ہیں:
يَقْرَءُ اِحْدٰى عَشَرَمَرَّةً قُلْ هُوَ اللهُ اَحَدٌ وَغَيْرَهَا مِنَ الْقُرْاٰنِ وَيُهْدِيْ ثَوَابَ ذٰلِكَ لِصَاحِبِ الْقَبْرِ. (غنية الطالبين، ص:۱۰۵)
ترجمہ: ۱۱ بار قرآن مجید میں قُلْ هُوَ اللهُ اَحَدٌ سے پڑھ کر اس کے ثواب کا ہدیہ صاحبِ قبرکو بھیجے۔
بلا شبہہ سرکار غوث اعظم محبوب سبحانی شیخ عبد القادر جیلانی علوم و معارف کے تاجدار ہیں، آپ کے فیوض و برکات کا سمندر آج بھی اسی شان سے جاری ہے۔ اولیاے کرام اور عرفاے دہر نے آپ کی مقدس بارگاہ میں عقیدتوں کا خراج پیش کیا ہے اور آج بھی دنیا بھر میں گیارہویں شریف، توشۂ قادریہ اور آپ کے تذکار کے سلسلے جاری ہیں۔ آج بھی ضرورت مند اپنی سچی طلب کے ساتھ آپ کے وسیلے سے اپنی مرادیں حاصل کر رہے ہیں، مگر ایک بات ہمیشہ اپنے دل و دماغ میں محفوظ رکھنا چاہیے کہ جو بھی اہتمام کریں اس میں سچائی اور اخلاصِ نیت ہو ، ریا کاری ومکاری اور شہرت و ناموری کے جذبات ہرگز نہیں ہونا چاہیے ، اس کا اعلان فخریہ نہیں ہونا چاہیے کہ ہم نے گیارہویں شریف میں سو دو سو دیگیں بنوائیں، یا مسلسل گیارہ دن تک لنگرِ عام کیا اور ہم تو گیارہویں شریف پر ہمیشہ ہی ایسا کرتے ہیں۔ یہ سب کام اگر اخلاصِ نیت کے ساتھ ہوں ، نام و نمود کا کوئی جذبہ نہ ہو تو بلا شبہہ یہ اچھے اور بہت اچھے کام ہیں اور جو نام و نمود کے لیے کرتے ہیں ، ہم ان کے لیے بھی اخلاصِ نیت کی دعا کرتے ہیں، مولا تعالیٰ انھیں اپنے پیارے حبیب ﷺ کے طفیل سچائی اور، تواضع و انکساری کی دولت عطا فرما اور نیتوں میں اخلاص کی خوشبو پیدا فرما دے۔آمین۔
چند ضروری گزارشات:
(۱)-آپ کے لنگر سے محتاج اور مسکین کھاتے ہیں، ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
ترجمہ:اگر تم صدقوں کو ظاہر کرو تو کیا ہی خوب ہے اور اگر تم انھیں چھپاؤ اور محتاجوں کو دو تو وہ تمہارے لیے بہتر ہے۔[البقرہ، آیت:۲۷۱]
اس آیتِ کریمہ سے واضح ہو گیا کہ غریبوں اور مسکینوں کو صدقات دو تو وہ آپ کے لیے ”تو یہ کیا ہی خوب“ اور ”تمہارے لیے بہتر ہے“ کے معنیٰ خیز الفاظ استعمال کیے گئے ہیں۔
(۲)-عام طور پر کھانے کھلائے جاتے ہیں اور شیرینیاں تقسیم کی جاتی ہیں، اس موقع پر امیر و غریب میں فرق نہیں کیا جاتا، اس ہدیے میں ”ادخال السرور فی قلب المؤمن“ ہے جس کے اجر و ثواب میں کوئی شبہہ نہیں، بلکہ بعض روایتوں سے ثابت ہے کہ یہ ستر برس کی عبادت سے افضل ہے۔ اس سے واضح ہو گیا کہ گیارہویں شریف اور دیگر دینی تقریبات میں کھانا کھلانا اور شیرینی تقسیم کرنا انتہائی افضل عمل ہے۔
(۳)-اس موقع پر مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ غریب اور مستحق بچیوں کی شادیاں کرائیں، ضرورت مند مریضوں کا علاج کرائیں، اسپتالوں میں فروٹ وغیرہ تقسیم کرائیں، یتیموں اور بیواؤں کی حسب ضرورت مدد کرائیں وغیرہ۔
(۴)-دینی مدارس جہاں عام طور پر غریب طلبہ دینی تعلیم حاصل کرتے ہیں، حیلہ شرعی کے بعد زکات اور، خیرات بھی ان میں استعمال ہوتی ہے۔ اگر گیارہویں شریف یا دیگر ایصال ثواب کے مواقع پر ان مدارس کی مدد کی جائے تو یقیناً ایک بہترین عمل ہوگا اور اس گئے گزرے دور میں دین و سنیت کے فروغ کا ذریعہ بھی ہوگا۔
(۵)-اس وقت ملک میں مسلمانوں کے جو سیاسی اور سماجی احوال ہیں۔ تعلیمی اور اقتصادی جو کیفیات ہیں، یہاں تفصیلات کا موقع نہیں، ذمہ داروں کو چاہیے کہ مسلم اتحاد اور فنڈنگ کی جانب توجہ کریں، غریبوں کو کھانا کھلانا بھی نیک کام ہے، مگر قوم کو تباہی سے بچانا اس سے بڑا کام ہے۔
یہ چند باتیں ہم نے برقت تحریرکی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اخلاص نیت کے ساتھ اچھے کام کرنے کی توفیق سے سرفراز فرمائے۔ آمین
ReplyForward
|