مشرف شمسی
چین کے صدر شی جنپنگ کا اچانک امریکہ دورہ یوں ہی نہیں ہوا۔یہ دورہ صرف تجارت میں ایک دوسرے کے درمیان رسہ کشی سے بچنے اور اُسے کم کرنے کے لئے نہیں ہوا ہے بلکہ شی جنپنگ نے امریکہ جانے کا فیصلہ اسلئے کیا کہ دنیا عالمی جنگ کے دہانے پر کھڑا ہے ۔امریکہ ناٹو ممالک کے ساتھ مل کر یوکرین کو روس کی قبر گاہ بنانا چاہتا ہے ۔دوسری جانب غزہ میں اسرائیل اور امریکہ کو اُلجھا کر روس یوکرین جنگ سے دنیا کی توجیہ ہٹانا چاہتا ہے ۔لیکن غزہ جنگ میں اسرائیل اور امریکہ بری طرح سے پھنس چکا ہے اور جلد غزہ میں اسرائیل کو فیصلہ کن فتح ممکن نظر نہیں آ رہا ہے۔ ایسے میں چینی صدر نے امریکہ سے صاف کہہ دیا ہے کہ غزہ میں جنگ بندی ممکن بنائیں ورنہ اُنکے لیے اس جنگ کو پھیلنے سے روک پانا مشکل ہو جائے گا۔اب خبر سامنے آ رہی ہے کہ اسرائیل نہ صرف جنگ بندی کے لئے راضی ہو چکا ہے بلکہ 50 اسرائیلی کے بدلے 300 فلسطینی کو رہا کرنےپر آمادہ ہو گیا ہے۔45 دنوں سے غزہ میں بمباری ہو رہی ہے۔غزہ کے عام فلسطینیوں کے ساتھ ہر وہ مظالم ہو رہے ہیں جس سے انسان تو انسان جانور بھی شرما جائے ۔لیکن جمہوریت اور انسانی حقوق کی بڑی بڑی باتیں کرنے والے امریکہ اور یورپ کے ممالک اسرائیل کی جارحیت اور بچوں کے قتل عام کو جائز ٹھہرانے کی کوشش کر رہے ہیں ۔جبکہ پوری دنیا میں اس اسرائیلی جارحیت کے خلاف عوام سڑکوں پر ہیں پھر بھی اُن ممالک کے حکمران اسرائیل کو غزہ کی نسل کشی سے روک نہیں پا رہے ہیں ۔غزہ پر اتنی بمباری ہوئی ہے کہ 75 فیصدی غزہ سپاٹ بن چکا ہے اس کے باوجود العربیہ چینل نے اسرائیل کے ایک قبرستان کے ڈائریکٹر کے حوالے سے خبر نشر کیا ہے کہ ہر ایک گھنٹے ایک اسرائیلی فوجی کی لاش دفن کے لئے قبرستان لائی جا رہی ہے ۔اسرائیل اپنے فوجی نقصانات کو چھپا رہا ہے ۔اسرائیل کب تک اس چھوٹے سے غزہ پر مکمل کنٹرول حاصل کر لے گا یہ اسرائیل اور امریکہ کو بھی معلوم نہیں ہے ۔جبکہ امریکہ کو شام اور لبنان میں روکنے کے لئے روس کی ہوائی جہاز متحرک ہو چکی ہے۔ایسے میں امریکہ کے لئے اسرائیل کو حوثی باغیوں اور حزب اللہ سے بچانے کے لئے امریکہ کو کھل کر ان محاذوں کو سنبھالنے مشکل ہو جائیں گے ۔ویسے امریکہ کی فوجیں اسرائیلی فوجی کپڑے میں غزہ کی جنگ پہلے دن سے لڑ رہے ہیں اس میں کسی طرح کی شک نہیں ہونی چاہئے ۔ہاں ایران اس جنگ میں عراق اور شام میں امریکی ٹھکانے پر حوثی باغیوں کے ذریعے مسلسل حملے کرا رہا ہے لیکن امریکہ کے پاس کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ہے کہ وہ اُن حملوں کے لئے براہ راست ایران کو مورد الزام ٹھہرا سکے۔حالانکہ امریکہ ایران کو مسلسل وارننگ دے رہا ہے کہ ایران اس جنگ کو ہوا نہیں دے۔امریکہ اور اسرائیل دونوں چاہتے ہیں کہ کسی طرح ایران کو قابو میں کیا جائے تبھی غزہ کو حماس سے پاک کیا جا سکتا ہے اور حزب اللہ اور حوثی کو روکا جا سکتا ہے ۔دوسری جانب شام میں اسد حکومت کے خلاف بغاوت کرنے والے شام کی فری آرمی جیسے ہی حرکت میں آتی ہیں روس کی جنگی ہوائی جہاز جو شام میں موجود ہے اُن پر بمباری شروع کر دیتا ہے ۔اس وجہ سے اسد حکومت محفوظ رہتی ہے۔آہستہ آہستہ غزہ جنگ اور یوکرین میں روس کی کاروائی عالمی جنگ 3 کی جانب بڑھتی جا رہی ہے اور اسی خدشات کو دیکھتے ہوئے چینی صدر شی جنپنگ امریکہ جا پہنچے اور امریکی صدر جو بائیڈن سے ملاقات کی ۔دونوں صدور کی ملاقات میں اس جنگ کے بارے میں کیا باتیں ہوئی یہ باہر نہیں آ پائی ہے لیکن دونوں جنگوں میں بڑی طاقتیں اپنی اپنی عزت بچا کر باہر نکل سکے اس پر گفتگو ضرور ہوئی ہے۔فلسطینی جنگ اگر لمبی چلی تو اسرائیل اور امریکہ کے لئے مشکل کھڑی ہو جائے گی ۔اسرائیل کی فوج غزہ کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک اپنی ٹینک اور بکتر بند گاڑیاں لے جانے میں کامیاب ہو رہے ہیں لیکن غزہ کے اندر اپنی ایک بھی چوکی بنا نہیں پائی ہے ۔حماس اسرائیلی فوج پر مسلسل حملے کر رہا ہے اور اُن حملوں میں نہ صرف اسرائیل کی فوج ماری جا رہی ہیں بلکہ ٹینک اور بکتر بند گاڑیاں بھی تباہ و برباد ہو رہی ہیں ۔حماس جنگ میں لڑکھڑاتا نظر آتا تو اسرائیل سے کسی بھی شرط پر جنگ بندی کے لئے تیار ہو جاتا اور قبضے میں لئے اسرائیلی افواج اور شہریوں کو چھوڑنے کے لئے حماس اسرائیل کے سامنے شرط نہیں رکھ پاتا ۔اب حماس سربراہ اسماعیل ھنیھ نے کہا ہے کہ جنگ بندی اور قیدیوں کی رہائی پر بات چیت آخر مراحل میں داخل ہو گیا ہے ۔اسرائیلی وزیر اعظم نے بھی جنگ بندی کی خوش خبری کی بات کہی ہے ۔یہ سب چین کے صدر شی جنپنگ کے امریکہ دورہ سے ممکن ہو پا رہا ہے ۔لیکن اسرائیل واقعی غزہ پر مکمل کنٹرول حاصل کرلیا ہوتا تو حماس جنگ بندی کے دوران غزہ کے آسمان میں اسرائیلی جاسوسی ڈرون کی پرواز نہ ہو اس شرط کو ماننے کے لئے نہیں کہتا۔اور اب کہا جا رہا ہے کہ اسرائیل اس شرط کو بھی مان گیا ہے ۔لیکن اسرائیل نے کہا ہے کہ یہ جنگ بندی عارضی ہوگی ہاں غزہ میں سبھی طرح کی انسانی امداد پہنچائے جانے پر اسرائیل کسی بھی طرح کی رکاوٹ پیدا نہیں کریگا۔اگر کل سے جنگ بندی کا اعلان ہو جاتا ہے تو اسرائیل اس جنگ سے کچھ بھی حاصل نہیں کر سکا ہے جبکہ فلسطینیوں نے اپنی قربانیوں سے اسرائیل کے طاقتور ہونے کا بھرم خاک میں ملا دیا ہے ۔
ReplyForward
|