مشرف شمسی
نئی دہلی: اسرائیل اور حماس کے درمیان چار دنوں کی جنگ بندی کے بعد دو دن اور جنگ بندی کے معیاد کو بڑھا دیا گیا ہے ۔اور اس بات کی توقع ہے کہ جنگ میں جو ٹھہراؤ آیا ہے وہ مستقل جنگ بندی میں تبدیل ہو جائے ۔مستقل جنگ بندی کے لیے قطر،مصر اور امریکہ مسلسل کام کر رہے ہیں ۔کیونکہ امریکہ کو معلوم ہے کہ شمالی غزہ کو کھنڈر میں تبدیل کر دیے جانے کے باوجود اسرائیل غزہ کی ایک انچ زمین پر قابض نہیں ہو پایا ہے۔اسرائیل ٹینکوں کے ساتھ غزہ کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک چکر تو لگا سکتا ہے لیکن غزہ کے اندر ایک بھی فوجی چوکی قائم کرنے میں اسرائیل کامیاب نہیں ہو سکا ہے ۔
غزہ کے شمالی علاقے میں اسرائیل کی فوج حماس کے لڑاکے کے
صفائے کی بات کر رہا ہے۔لیکن حماس آخری گیارہ اسرائیلی قیدی کو اسی شمالی غزہ سے رہا کیا ہے جو اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ اسرائیل کا غزہ پر مکمل کنٹرول ایک خیالی بات ہے ۔دراصل اسرائیل اور وزیر اعظم نیتن یاہو غزہ جنگ سے عزت کے ساتھ باہر نکلنا چاہتے ہیں لیکن اُنھیں راستہ نہیں مل رہا ہے ۔اسرائیل شمالی غزہ کو تباہ و برباد کر چکا ہے اور اب جنوبی غزہ میں حملے کی دھمکی دے رہا ہے ۔کیا جنوبی غزہ میں اسرائیلی افواج کے حملے کے خلاف دنیا خاموش رہے گی۔کیونکہ شمالی غزہ سے دس لاکھ افراد بے گھر ہو کر جنوبی غزہ میں آ چکے ہیں ۔ایسے میں اسرائیل کا جنوبی غزہ میں حملھ فلسطینیوں کی نسل کشی کے علاوہ کچھ نہیں کہا جاسکتا ہے ۔جنوبی غزہ پر اسرائیلی حملھ اتنی تباہی لائے گا کہ دنیا ہٹلر کے ہولو کاسٹ کو بھول جائے گا اور یہ اسرائیل کی سب سے بڑی بھول ہوگی۔اسرائیل اور یہودیوں کے خلاف دنیا بھر میں نفرت پھیلیگی اور اس نفرت کا خمیازہ بے قصور یہودی بھی بھگتنے پر مجبور ہونگے۔اسرائیل غزہ سے حماس کو ختم کر دینے کا اعلان کیا تھا لیکن حماس ایک گروہ نہیں ہے بلکہ حماس فلسطینیوں کی ایک سوچ ہے حالانکہ اس کے باوجود میں ذاتی طور پر حماس کے سات اکتوبر کے اسرائیل حملے میں بے قصور اسرائیلی شہریوں کے مارے جانے کو صحیح نہیں مانتا ہوں اور فلسطینیوں میں حماس کی سوچ کو ختم کرنا آسان نہیں ہے ۔اسرائیل غزہ میں نہ حماس کو ختم کر سکتا ہے اور نہ غزہ کا کنٹرول حاصل کر سکتا ہے۔اسلئے اسرائیل کا دھیان اب اپنے شہریوں کی حماس کے قبضے سے رہائی میں لگا ہوا ہے۔لیکن حماس نے اسرائیلی فوجیوں اور شہریوں کو قبضہ میں لینے کے وقت ہی اعلان کر دیا تھا کہ اس کا مقصد اسرائیل کے جیلوں میں بند اُنکے سارے قیدیوں کی رہائی ہے۔کہا جا رہا ہے کہ مستقل جنگ بندی کے لئے اسی پر گفتگو ہو رہی ہے ۔لیکن حماس صرف اپنے سبھی قیدیوں کی رہائی ہی نہیں چاہتا ہے بلکہ غزہ کا محاصرہ اور اسرائیل مغربی کنارہ میں بستیاں بنانا بند کرے یہ بھی شرط جوڑ دیا ہے ۔اسرائیل کے لیے حماس کی شرط کو اعلانیہ قبول کرنا اسکے طاقت ور ہونے کا بھرم توڑ دیگا۔ویسے بھی اسرائیل 50 دن اور غزہ میں جنگ لڑ کر حماس کو ختم نہیں کر سکتا ہے اور نہ ہی عام فلسطینیوں کے حوصلے کو پست کر پائے گا ۔اسلئے اسرائیل کے پاس آخری اور واحد راستہ ہے کہ وہ حماس کو فلسطینیوں کی نمائندہ تنظیم سمجھ کر اس سے براہ راست بات کرے۔اسرائیل کا طاقت ور ہونے کا گمان ٹوٹ چکا ہے ۔کہا جاتا ہے کہ سات اکتوبر کے حماس کے حملے میں اسرائیل کے اہم خفیہ دستاویز جو موساد کے تعلق سے ہے حاصل کر لیا ہے ۔اب موساد کے لوگ دنیا بھر میں کس کس مہم میں لگے ہوئے ہیں اسکی پوری جانکاری حماس کے پاس ہے ۔حماس سے یہ جانکاری ایران تک ضرور جائیگی ۔نتیجہ موساد میں شامل انٹیلیجنس کے لوگوں کی جان خطرے میں پڑ جائے گی ۔اسرائیل کے لیے موساد کو بچانا سب سے زیادہ بڑا كام ہے ۔دنیا بھر میں موساد کے ایجنٹ پر حملے شروع ہو گئے تو اسرائیل کا وجود ہی خطرے میں پڑ جائے گا ۔اسلئے اسرائیل کے لیے ضروری ہے کہ وہ حماس کو فلسطین کا جائز نمائندہ تسلیم کرے اور ایک آزاد اور خودمختار فلسطین ریاست کی بات اس سے کرے ۔اسرائیل حماس کو کچلنے کی بات دماغ سے نکال دے ورنہ خود اسرائیل نقشے سے ختم ہو جائے گا ۔