مشرف شمسی
دفعہ 370 کے متعلق عدالت عالیہ کا حتمی فیصلہ ملک کے سامنے آ گیا ہے ۔عدالت عالیہ نے 370 کی منسوخی کے طریقے کار کو بھی صحیح مان لیا ہے ۔اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ جمّوں و کشمیر مسلم اکثریتی ریاست ہونے کے بعد بھی پاکستان کے ساتھ نہ جا کر بھارت کے ساتھ رہنے کا فیصلہ کیا لیکن جمّوں و کشمیر کا بھارت کے ساتھ الحاق کچھ شرطوں کے ساتھ ہوا تھا اور ان شرطوں میں جمّوں و کشمیر کو بطور ریاست ایک خاص قسم کا درجہ حاصل ہونا تھا ۔اس خاص درجے میں سب سے اہم جمّوں و کشمیر میں زمین کے ٹکڑے کا مالکانہ حق ریاست کے باہر کے لوگ نہیں ہو گا ۔ساتھ ہی ریاست سے متعلق کوئی بھی اہم فیصلہ پارلیمنٹ نہیں لے سکتا ہے جب تک کہ اس فیصلے کو جمّوں و کشمیر کے عوام کی نمائندہ اسمبلی اکثریت سے منظور نہیں کر لیتی ہے ۔لیکن دفعہ 370 کی منسوخی يا 35A ختم کرنے کے فیصلے سے پہلے جمّوں و کشمیر کی اسمبلی کو سسپنڈ کر دیا گیا تھا ۔مرکز سے بھیجے گئے گورنر نے 370 کی منسوخی کی تجویز مرکزی سرکار کے پاس بھیجی تھی اور پھر اس تجویز کو ہی پارلیمنٹ سے پاس کر دیا گیا تھا ۔5 اگست 2019 کو نہ صرف جمّوں و کشمیر سے دفعہ 370 کے تحت ملا خاص درجہ چھین لیا گیا بلکہ پورے جمّوں و کشمیر کو مرکز کے ماتحت دو ریاست بنا دیے گئے ۔ وہ دو ریاستیں لداخ اور جمّوں و کشمیر بنے۔کانگریسی رہنما اور بھارت کے بڑے قانون داں میں ایک ابھیشیک منو سنگھوی نے صاف کہا کہ ایک ریاست سے تھوڑے سے حصے کو الگ کر اسے مرکز کے ماتحت ریاست بنایا جا سکتا ہے لیکن ایک پوری ریاست کو دو حصوں میں منقسم کر مرکز کے ماتحت دو ریاستیں نہیں بنائی جا سکتی ہیں ۔سنگھوی نے کہا کہ جمّوں و کشمیر بطور ریاست قائم رہتا اور لداخ کو مرکز کے ماتحت ریاست بنا دیا جاتا تو یہ آئین کے مطابق ہوتا لیکن سرکار نے جو طریقہ کار استعمال کیا اور اس طریقے کار کو عدالت عالیہ کی مہر سمجھ سے باہر ہے۔مارکس وادی کمیونسٹ پارٹی کے جنرل سیکریٹری سیتا رام یچوری نے کہا ہے کہ جمّوں و کشمیر کے معاملے میں عدالت عالیہ کا فیصلہ مسقبل میں وفاقی ڈھانچے کو نقصان پہنچائے گا اور ملک کے لئے خطرہ ثابت ہوگا۔جمّوں و کشمیر میں 135 اے کے تحت کوئی بھی شخص جو ریاست کا نہیں ہے اسے جمّوں و کشمیر میں زمین خریدنے کا حق نہیں حاصل تھا ۔یہ مخصوص درجہ صرف جمّوں و کشمیر کو ہی حاصل نہیں تھا۔ جمّوں و کشمیر میں 135 اے ختم کر دیا گیا ہے لیکن دفعہ 371 کے تحت ہماچل پردیش اور شمال مشرق کی کسی بھی ریاستوں میں ریاست کے باہر کا کوئی بھی شخص زمین کا ٹکڑا اپنے نام سے خرید نہیں سکتا ہے ۔اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ جمّوں و کشمیر جیسی خوبصورت ریاست پر کارپوریٹ کی پہلے سے ہی نظر تھی۔لیکن موجودہ بی جے پی سرکار کے لئے جمّوں و کشمیر سے 370 کی منسوخی ایک سیاسی وجہ بھی تھی ۔لیکن موجودہ سرکار صرف جمّوں و کشمیر میں کارپوریٹ کی راہیں ہموار کر کے رک نہیں جائیگی بلکہ ان کا اگلا نشانہ شمال مشرق کی ریاستیں ہونگی۔منی پور میں تشدد کی آگ مہینوں سے رک نہیں رہی ہیں اسکے پیچھے بھی ریاست میں کارپوریٹ کے مفاد ہی بتائے جا رہے ہیں ۔
جمّوں و کشمیر کے معاملے میں عدالت عالیہ کا فیصلہ نہ صرف ریاست کے عوام کو مایوس کیا ہے بلکہ ملک کے انصاف پسند لوگوں کو بھی مایوس کیا ہے ۔اس ملک کے عوام کو آخری اُمید عدالت عالیہ سے ہی تھا خاص کر موجودہ چیف جسٹس ڈی وائی چندر چور سے۔لیکن اس مقدمے کے اہم وکیلوں نے چیف جسٹس کے بینچ کے اس فیصلے پر مایوسی ظاہر کی ہے ۔جمّوں و کشمیر پر آئے فیصلے کے بعد اس ملک کے عوام خاص کر حزب اختلاف کی جماعتیں یہ اُمید کر سکتی ہیں کہ عدالت عظمٰی کوئی بھی فیصلہ سرکار کے فیصلے کے خلاف لے سکتی ہے ؟