یمن کا اسرائیل کے خلاف سمندری محاصرہ مسلسل سنگین ہوتا جا رہا ہے ۔یمن لگاتار بابل مندب سے اسرائیل اور اسرائیل سے سامان لے کر باہر آنے والی سمندری جہازوں پر حملہ کر رہا ہے یا اُنکا رخ موڑنے پر مجبور کر رہا ہے ۔یمن صرف اسرائیل کی جہازوں کو نشانہ نہیں بنا رہا ہے بلکہ امریکہ،انگلینڈ اور فرانس کے جہازوں کو بھی یمن کے حوثی باغی نشانہ بنا رہے ہیں جو اسرائیل کے بندرگاہ سے سامان لے کر آ یا جا رہے ہیں ۔ظاہر سی بات ہے کہ یمن سے لگے اس سمندری گزرگاہ کو کئی بڑی جہاز کمپنیوں نے غیر محفوظ قرار دے دیا ہے اور اپنے جہازوں کو بحرِ احمر سے لے جانے سے انکار کر دیا ہے۔اب امریکہ اور اسکے اتحادیوں نے اس سمندری گزرگاہ کو محفوظ بنانے کے لئے یمن کے خلاف ایک ٹاسک فورس بنانے کے اعلان کے ساتھ جنگ کا اعلان بھی کر دیا ہے ۔یمن بھی اپنے وعدے کے مطابق کسی بھی مال بردار جہاز کو اسرائیل کے بندرگاہ تک پہنچ نہیں پائے اس کے لیے مسلسل کاروائی کر رہا ہے۔یہاں تک کے امریکہ کے جہازوں پر بھی حمله کر رہا ہے ۔لیکن امریکہ نے اپنے اتحادیوں کے ساتھ جو ٹاسک فورس بنایا ہے اس ٹاسک فورس میں کون کون سے عرب ممالک حصہ بنیں گے اس کا خلاصۃ نہیں ہوا ہے ۔ لیکن یہ دیکھنا ضروری ہے کہ سعودی عرب ،متحدہ عرب امارات ،مصر اور اردن امریکہ کے دباؤ میں اس محاذ میں شامل ہو سکتے ہیں ۔لیکن جس طرح سے روس کے صدر پوتن متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کا دورہ کر کے گئے ہیں اور ایران کا سعودی عرب سے مسلسل رابطے میں رہنے کی وجہ سے شاید ہی سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات امریکی محاذ کا حصہ بنے۔ہاں مصر میں امریکہ اور اسرائیل کے پٹھو صدر السیسی اس ٹاسک فورس کا حصہ بن جائے۔لیکن مصر کی پچانوے فیصد آبادی صدر السیسی کے خلاف ہیں۔ حالانکہ مصر کے حالیہ صدارتی انتخابات میں پچانوے فیصدی ووٹ السیسی کو حاصل ہوئی ہے لیکن یہ بھی اطلاعات ہیں کہ صرف ساڑھے چار فیصد ووٹ اس الیکشن میں ڈالے گئے ۔مصر میں فلسطین کے حق میں مظاہرہ کرنے پر سخت پابندی لگا دی گئی ہے ۔حالانکہ گزشتہ دنوں ایک فٹبال میچ کے دوران اسٹیڈیم میں موجود دس ہزار سے زیادہ افراد نے ایک ساتھ فلسطین کے حق میں نعرے لگائے۔ یعنی مصر فلسطین کے حق میں اُبل رہا ہے ۔اگر مصر یمن کے خلاف محاذ کے ساتھ کھڑا ہوا تو وہاں السیسی کے خلاف بغاوت ہو جانے کا امکان ہے ۔
یمن نے شروع سے اپنا اسٹینڈ صاف کر رکھا ہے جب تک غزہ میں معصوم اور نہتے فلسطینیوں کا قتل رکتا نہیں ہے اور اسرائیل غزہ میں مکمل جنگ بندی نہیں کرتا ہے تب تک بحرِ احمر سے کوئی بھی مال بردار جہاز اسرائیل نہیں پہنچ پائے گا ۔ مضمون لکھے جانے تک امریکہ اور اسکے اتحادیوں نے یمن پر حملہ نہیں کیا ہے لیکن امریکی سمندری بیڑہ بحرِ احمر میں پہنچ جانے کی خبر ہے۔یمن پر حملھ ہوتا ہے تو یقیناً ایران خاموش بیٹھ نہیں سکتا ہے اور اگر اس جنگ میں ایران کودتا ہے تو تیسری عالمی جنگ کی شروعات مان لیا جائے گا۔کیونکہ اس جنگ میں ایران کے شامل ہوتے ہی روس اور چین بھی خود کو اس جنگ سے الگ نہیں رکھ سکتا ہے ۔مشرق وسطیٰ میں معاملہ اُلجھتا جا رہا ہے اور پورا معاملہ بارود کا ڈھیر بنتا جا رہا ہے اور یہ بارود کا ڈھیر کبھی بھی دھماکہ کر سکتا ہے جو پوری دنیا میں تباہی لائیگا ۔
یمن پر حملہ تیسری عالمی جنگ کا پیش خیمہ ثابت ہوگا
Leave a comment
Leave a comment