عبد السلام قدوائی
مولانا محمد اویس ندوی نگرامی دارالمصنفین اور معارف کے حلقہ میں مولانا محمد اویس ندوی نگرامی کا نام محتاج تعارف نہیں ہے، وہ معارف کی مجلس ادارت کے رکن اور دارالمصنفین کی مینیجنگ کمیٹی کے ممبر تھے، رفیق کی حیثیت سے بھی کئی سال تک یہاں رہ چکے اور تصنیف و تالیف کے علاوہ سیرۃ النبی کی نظرثانی میں بھی انھوں نے مولانا سید سلیمان ندوی مرحوم کا ہاتھ بٹایا تھا، سید صاحب کی جوہر شناس نگاہ نے طالب علمی کے زمانہ ہی میں ان کی صلاحیت کا اندازہ کرلیا تھا، تعلیم سے فراغت کے کچھ ہی عرصہ بعد ان کو دارالمصنفین لے آئے، تصنیف و تالیف کے علاوہ وہ ان کی درسی لیاقت کے بھی معترف تھے، قرآن مجید کے مطالعہ کا شوق انہیں شروع ہی سے تھا، سید صاحب کی صحبت میں یہ ذوق اور بڑھا، یوں تو سبھی اہم تفسیریں نظر سے گزریں تھی، لیکن ابن جریر اور ابن کثیر سے زیادہ دلچسپی تھی علامہ ابن تیمیہ اور حافظ ابن قیم کے تو عاشق تھے، ان کا ذکر بڑے والہانہ انداز میں کیا کرتے تھے، اس گرویدگی کا اثر تھا کہ مختلف کتابوں سے ان کے تفسیری بیانات چن کر ایک ضخیم کتاب تیار کردی، ان کی یہ کوشش ہندوستان ہی میں نہیں، بلکہ پوری دنیا میں قدر کی نگاہ سے دیکھی گئی، اب تک کئی اڈیشن شائع کرچکے ہیں۔علمی انہماک کے ساتھ تزکیۂ نفس اور اصلاح باطن کا بھی بڑا خیال تھا، ان کا خاندان شریعت و طریقت کی جامعیت میں ممتاز تھا، ان کے پردادا مولانا عبدالعلی حضرت شاہ علم اﷲ رائے بریلوی کے سلسلہ سے وابستہ تھے، دادا مولانا محمد ادریس بھی ایک بڑے عالم اور شیخ طریقت تھے، وہ مولانا عبدالحئی فرنگی محلی مولانا عبدالحق حقانی اور قاری عبدالرحمن پانی پتی کے شاگرد اور مولانا فضل رحمن گنج مراد آبادی کے خلیفہ تھے، والد ماجد مولانا محمد انیس بھی پوری زندگی ارشاد و ہدایت میں مصروف رہے، اس خاندان کی بدولت اودھ کے بہت سے علاقوں میں کتاب و سنت کی روشنی پہنچی، دیہات کی بہت سی برادریاں جو شرک و بدعت اور غیر شرعی رسوم میں مبتلا تھیں، ان کے ذریعہ راہ راست پر آئیں، مولانا محمد اویس کو تعلیمی و تصنیفی مشاغل کی وجہ سے دیہاتی حلقوں میں دورہ کا زیادہ موقع نہیں ملتا تھا، لیکن بایں ہمہ بزرگوں کی یہ روایت منقطع نہیں ہونے پائی۔
دارالمصنفین کے زمانۂ قیام میں ندوہ کو ان کی ضرورت محسوس ہوئی، مولانا سید سلیمان ندوی مرحوم ندوہ کے بھی معتمد تھے، چنانچہ ان کے مشورے سے وہ وہاں چلے گئے، اور قرآن مجید کی تعلیم ان کے سپرد ہوئی، خداداد مناسبت کے علاوہ سید صاحب کی رہنمائی میں وہ اس موضوع پر کافی تیاری کرچکے تھے، اس لئے ان کا درس بہت مقبول ہوا، طلبہ کے علاوہ لکھنؤ کے تعلیم یافتہ اصحاب نے بھی استفادہ کی خواہش کی، اور سید صدیق حسن صاحب مرحوم کے دولت کدہ پردرس ہونے لگا، یہ سلسلہ جب تک بیماری نے مجبور نہیں کردیا، برابر جاری رہا، ان کو قلبی تکلیف کئی سال سے تھی، لیکن شروع میں اس کا احساس نہیں ہوا لیکن جب تکلیف بڑھی تو علاج شروع ہوا، اور اس میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی گئی، لیکن تقدیر کے سامنے کوئی تدبیر نہ چل سکی، بالآخر وقت موعود آپہنچا، اﷲ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ان کے مراتب بلند فرمائے، اور پس ماندگان کو توفیق عطا فرمائے کہ ان کے نقش قدم کو دلیل راہ بنائیں۔ آپ کی ساری زندگی انتہائی سادگی کے ساتھ گزری اور آخر وقت تک اپنی دینی خدمات انجام دیتے رہے حضرت کے وارثین میں آپ کی نو اولادیں ہوئیں جن میں حافظ شعیب ازہری نگرامی مولانا پروفیسر محمد یونس نگرامی ندوی ڈاکٹر یوسف ازہری نگرامی اور ڈاکٹر ہارون ازہری نگرامی شامل ہیں۔
بتایا جاتا ہے کہ مرض کی شدت نے ضعف و نقاہت میں بھی تیزی پیدا کردی تھی، اس کے باوجود ان سے رہا نہ گیا اور معالجوں کی ممانعت کے باوجود ایک کار میں بیٹھ کر دارلعلوم کے پورے کیمپس کا دورہ کیا، پنڈال اور اسٹیج دیکھا، عمارتوں اور پارکوں پر نظر ڈالی، درو دیوار ہی نہیں بلکہ ایک ایک اینٹ کو غور سے دیکھا درو دیوار پر سبزہ اگ رہا تھا انھیں غالب کی طرح اپنے بیابانی ہونے کا تکلیف دہ احساس ہورہا تھا۔ یہ دورہ دارلعلوم کا شائد آخری دورہ تھا، زبان قال سے نہ سہی زبان حال سے وہ چمن والوں کو خوش رہنے اور اپنے آخری سفر پر چلنے کی بات کہہ گئے تھے لیکن مانوس تبسم اب بھی ان کے ساتھ تھا، یہ تبسم مجھے اس وقت بھی ان سے جدا نہ دکھائی دیا جب میں آخری بار ان کی عیادت کی غرض سے لکھنؤ میڈیکل کالج پہنچا تھا، بھاری بھرکم جسم نحیف ہوچکا تھا، مگر اس کے باوجود دیر تک نصیحتیں کرتے رہے، جب معلوم ہوا کہ میں دارالمصنفین جارہا ہوں تو بہت خوش ہوئے، دعائیں دیں اور پھر خاموش ہوگئے، شاید عہد رفتہ کی کچھ کہانیاں یاد آگئی ہوں۔مولانا مرحوم کی تصانیف کی فہرست زیادہ طویل نہیں، درس و تدریس کی زندگی اس کا موقع بھی کہاں دیتی تھی لیکن اس کے باوجود تفسیر ابن القیم ہی ان کے نام کو زندہ رکھنے کے لئے کافی ہے، فکر و خیال کی ہم آہنگی نے انھیں شاہ ولی اﷲ دہلوی کا بڑا معتقد بنادیا تھا، چنانچہ علم کلام میں شاہ صاحب کے رسالہ العقیدہ الحسنہ کی شرح لکھی جو العقیدۃ السنیہ کے نام سے طبع ہوئی، یہ رسالہ نہ صرف ہندوستان بلکہ عالم عربی کے مدارس میں داخل نصاب ہوا، اس کے علاوہ تعلیم القرآن، رسالہ اصول حدیث، قرآن کا مطالعہ کیسے اور بلاکشان اسلام جیسی تصانیف یادگار چھوڑیں، ضرورت اس بات کی ہے کہ مولانا کے مضامین کا مجموعہ شائع ہو، سید صاحب کے حوالوں اور حواشی کا ایک قابل تفسیری سرمایہ ان کے پاس محفوظ تھا، اس کی اشاعت بھی قرآنی علوم میں قیمتی اضافہ ہوگی۔ز ندگی ان کی قابل رشک رہی پھر موت کیوں نہ قابل رشک ہوتی، جمعہ کا دن ملا شعبان و رمضان کے مبارک مہینوں کے عین اتصال کے موقعہ پر برکتوں کے سایہ میں وہ اپنے مالک حقیقی سے جاملے۔