مبارک حسین مصباحی
(چیف ایڈیٹر ماہ نامہ اشرفیہ مبارک پور)
2019 ء سے جزوی طور پر اور پھر 2022 ء میں بلڈوزر ایکشن شروع کیا۔ ہر طرف ہاہاکار مچی ہوئی تھی، بلڈوزر ایکشن یو پی کے مختلف علاقوں میں اپنی گھن گرج کے ساتھ آگے بڑھتا رہا ، اس کے بعد ایم پی اور راجستھان وغیرہ میں اس کے شعلوں کی چنگاریاں اٹھنے لگیں ، خدا بھلا کرےان تنظیموں اور سرکردہ شخصیات کا جنھوں نے کیس سپریم کورٹ میں داخل کیا اور طے شدہ تاریخ پر اپنے بحث کرنے والے ماہر وکلاکو کھڑا کیا۔
ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے اس کے دستور میں الیکشن کے بعد سلیکشن ہوتا ہے، ہندو ، مسلم ، سکھ اور عیسائی وغیرہ سب کو اپنے مذہبی امور اور احکام پر عمل کرنے کی اجازت ہے یہاں سول کورٹ اپنے اپنے صوبوں کی ہائی کورٹ اور ملکی سطح پر سپریم کورٹ ہے مگر افسوس بعض سیاسی پارٹیاں کٹر پنتھ مذہبی تنظیموں کے تعاون سے برسر اقتدار ہیں اور وہ اپنے مذاہب کی برتری کے لیے دیگر مذاہب پر حملہ آور رہتی ہیں ۔ اب آپ موجوده بی جے پی ہی کو دیکھ لیجیےجو آر ایس ایس اور بجرنگ دل وغیرہ ہند و کٹر پنتھ مذہبی تحریکوں کے دباؤ میں کام کر رہی ہیں ۔یہ مذہبی تحریکیں دیگر مذاہب پر مسلسل شب خون مار رہی ہیں، خاص طور پر مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں پر حملہ آور رہتی ہیں اسکولوں اور کالجوں میں تعلیم و تربیت کا مسئلہ ہو یا جو ان بچیوں کے پر دے اور نقاب کا مسئلہ، اسی طرح وقف ایکٹ 2024 کا مسئلہ ہو یا دینی مدارس کو اسکولوں اور کالجوں میں بدلنے کا مسئلہ ۔ اسی طرح دیگر مسائل میں بھی مسلسل مداخلت کرتی رہتی ہیں ۔
بلڈوزر ایکشن معاملے میں کانگریس کی ترجما ن سپریہ شرینت نے ویڈیو جاری کرکے ردعمل دیا کہ بلڈوزر کارروائی کسی بھی جمہوری ملک میں قابل قبول نہیں ہے اور وہ بھی اقلیتوں کے خلاف تو بالکل بھی نہیں کیوں کہ اس کے ذریعے اکثریتی جبر کا پیغام دیا جاتا ہے جسےسپریم کورٹ نے بیک جنبش قلم مسترد کردیا ہے۔ سپریہ شرینیت نے مزید کہا کہ کانگریس پارٹی ہمیشہ سے کہتی رہی ہے کہ بلڈوزر انصاف کا طریقہ نہیں ہو سکتا بلکہ یہ تو جبر کا طریقہ ہے جس سے مودی حکومت اور بی جے پی کی دیگر حکومتوں کو بچنا چاہیے تھا لیکن وہ اسے پورے ملک میں فروغ دے رہے تھے بہرحال اب سپریم کورٹ نے اس کا نوٹس لے لیا ہے اور فیصلہ سنادیا ہے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ جو گائیڈ لائنز جاری ہوں گی وہ نہایت معقول ہو ں گی۔ واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے ملک میں یکم اکتوبر 2024تک بلڈوزر کارروائی پر روک لگادی ہے۔ کورٹ نے مرکزی حکومت کی سرزنش کرتے ہوئے کہاکہ اگر دو ہفتہ تک بلڈوزر پر روک لگی رہی تو کوئی آسمان نہیں گر پڑے گا۔ بنچ نے ایک مرتبہ پھر واضح کیاکہ اس کے احکامات غیرقانونی تعمیرات کے بارے میں نہیں تاہم کہاکہ اگرایک بھی غیر قانونی انہدامی کارروائی ہوئی تو اس کو آئینی اخلاقیات کے خلاف تصور کیا جائے گا۔ مرکزی حکومت کے ذریعہ ملک گیر سطح پر اس طرح کی روک عائد کرنے پر اعتراض کو مسترد کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے کہاکہ وہ آئین کے آرٹیکل ۱۴۲؍ کے تحت اپنے خصوصی اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے یہ احکامات جاری کر رہی ہے۔ عدالت نے عندیہ دیاکہ وہ رہنما خطوط کے بجائے غیرقانونی بلڈوزر کارروائیوں کے خلاف احکامات جاری کرسکتی ہے۔سپریم کورٹ میں جمعیۃ کےدونوں گروپوں اور دیگر کی عرضی پر سماعت کرتے ہوئے جسٹس بی آر گوئی اور جسٹس کے وی وشناتھن کی بنچ نےاپنے واضح حکم میں کہاکہ’’ اگلی تاریخ تک اس عدالت کی اجازت کے بغیر کوئی انہدامی کارروائی نہیں ہو گی۔ تاہم اس طرح کا حکم عوامی سڑکوں، فٹ پاتھ، ریلوے لائنوں یا عوامی مقامات پر غیر مجاز تعمیرات پر لاگو نہیں ہوگا۔‘‘ سینئر ایڈوکیٹ چندر ادے سنگھ سپریم کورٹ میں گزشتہ سماعت کے باوجود انہدامی کارروائی کی بنچ کی توجہ دلائی تھی۔ انہوں نے پتھربازی کا الزام عائد کرکے ۱۲؍ ستمبر کو گھر منہدم کئے جانے کے بارے میں عدالت کو آگاہ کیا۔حالانکہ مرکزی حکومت نے اس کا دفاع کرنے کی کوشش کرتے ہوئے اس کو ایک غیر متعلقہ معاملہ قرار دیا۔ تاہم بنچ نے ناراضگی کااظہار کرتے ہوئے سوال کیاکہ تو پھر اس معاملے میں اچانک انہدام کی ضرورت کیوں پیش آگئی؟ اس کے بعد بنچ نے اپنے سخت مشاہدہ میں کہاکہ عدالت ناجائز تعمیرات کے انہدام میں طاقت اور اختیارات کے غلط استعمال کے خلاف احکامات جاری کرنا چاہتی ہے۔ حالانکہ سالیسٹر جنرل نے عدالت کی توجہ اصل مسئلہ سے ہٹانے کی بھرپور کوشش کرتے ہوئے کہاکہ یہ بیانیہ بنانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ ایک خاص برادری کے گھروں کو منہدم کیا جارہاہےلیکن عدالت نے اسے تسلیم نہیں کیا۔ سپریم کورٹ نے یوگی آدتیہ ناتھ کی طرح بلڈوزر کارروائی کرنے والی ریاستوں پر بڑا فیصلہ سنایا ہے۔ سپریم کورٹ نے بلڈوزر کی کارروائی پر پابندی لگا دی ہے اور سبھی ریاستوں کو ہدایات جاری کی ہیں۔ اب کوئی بھی ریاست اجازت کے بغیر بلڈوزر کی کارروائی نہیں کر سکے گی۔ بلڈوزر کارروائی کے خلاف دائر درخواستوں پر سپریم کورٹ نے یہ روک لگائی ہے۔ سپریم کورٹ نے واضح طور پر کہا کہ اگلی سماعت تک کسی بھی ریاست میں بلڈوزر کی کارروائی نہیں ہوگی۔ گذشتہ سنوائی میں جسٹس بی آر کی سربراہی میں گوائی بنچ نے واضح کیا تھا کہ قانون ان ملزمان کی جائیدادوں کو منہدم کرنے کی اجازت نہیں دیتا، جن پر ابھی تک مقدمہ چل رہا ہے۔ جسٹس گوائی نے 2 ستمبر کو سماعت کے دوران زبانی طور پر ریمارکس دیئے تھے کہ کسی ایک کیس میں ملزم ہونے پر کسی کا گھر کیسے گرایا جا سکتا ہے؟ قانون اس بات کی اجازت نہیں دیتا۔ چاہے کوئی شخص مجرم ہی کیوں نہ ہو؟ غور طلب ہے کہ عدالت نے درخواست گزاروں سے غیر قانونی مسماریوں کے خلاف یکساں رہنما خطوط وضع کرنے کے لیے تجاویز طلب کی تھیں۔ مرکزی عرضی گزار تنظیم نے انہدام سے کم از کم 45 سے 60 دن پہلے پیشگی نوٹس تجویز کیا ہے، جس میں قانونی دفعات کی وضاحت کی گئی ہے۔ جس کے تحت جائیداد کو مسمار کیے جانے اور من مانی کارروائی کے ذریعے قانون کی خلاف ورزی کرنے والے افسران پر ذاتی ذمہ داری عائد کی جائے گی۔
قابل ذکر ہے کہ درخواست گزار نے ان افراد اور ان کے خاندانوں کو فوری اور جامع ریلیف، بحالی اور معاوضہ دینے کا مطالبہ کیا ہے جن کے گھروں کو بلڈوز کیا گیا ہے۔
سینئر ایڈوکیٹ دشینت دیو، سینئر ایڈوکیٹ سی یو کے ساتھ درخواست گزار کی طرف سے پیش ہوئے۔ سنگھ نے پچھلی سماعت میں عدالت سے یہ بیان دینے پر زور دیا تھا کہ ان کے رہنما خطوط کے ذریعہ ‘ملک میں کہیں بھی بلڈوزر جسٹس نہیں ملا۔
اِدھر عدالت کے اس فیصلے پر سماج وادی پارٹی (ایس پی) کے سربراہ اکھلیش یادو کا رد عمل سامنے آیا ہے۔انھوں نے یوپی حکومت پر سخت نکتہ چینی کی ہے۔ ایک نیوز چینل سے گفتگو کرتے ہوئے اکھلیش یادو نے کہا ہے ،’’جس دن سے یہ بلڈوزر چلنا شروع ہوا ہے، ہم اپوزیشن کے لوگ کہہ رہے ہیں کہ یہ آئین کے خلاف ہے۔ بلڈوزر کو انصاف کیسے سمجھا جا سکتا ہے؟ یہ جمہوریت میں انصاف نہیں ہو سکتا۔ میں سپریم کورٹ کے اس فیصلے کا خیرمقدم کرتا ہوں ۔ اس فیصلے کے بعد بلڈوزر ہمیشہ کے لیے بند ہو جائے گا۔میں خاص طور پر ان لوگوں کومبارکباد دیتا ہوں ، جن کو عدالت انصاف دے سکتی ہے۔ایسے میں حکومت کے خلاف ہی کارروائی ہو گی۔ اکھلیش یادو نے مزید کہا، حکومت نے لوگوں کو ڈرانے کے لیے جان بوجھ کر بلڈوزر کی اتنی تشہیر کی کہ لوگ دہشت میں آگئے۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ بلڈوزر ایکشن کا اتنا’’ مہِما منڈن‘‘ نہیں ہونا چاہئے، میں اس کے لئے ان کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں۔‘‘دوسرے کئی اپوزیشن لیڈروں نے بھی سپریم کورٹ کی اس ہدایت کا خیرمقدم کیا ہے۔
اس سے قبل 12 ستمبر کو بھی’’ بلڈوزر ایکشن‘‘ پرسپریم کورٹ نے کہا تھا کہ بلڈوزر کی کارروائی ملک کے قوانین پر بلڈوزر چلانے کے مترادف ہے۔ تب یہ معاملہ جسٹس ہرش کیش رائے، جسٹس سدھانشو دھولیا اور جسٹس ایس وی این بھٹی کی بنچ کے سامنے تھا۔بنچ کے ذریعہ معاملے کی سماعت کے دوران کورٹ کا آبزرویشن سامنے آیا تھا، جس میں کہا گیا تھا کہ اگر کوئی ملزم قصوروار بھی ہے، اس کے باوجود قانونی عمل کی پیروی کیے بغیر اس کے گھر کو مسمار نہیں کیا جا سکتا۔
قابل ذکر ہے کہ بی جے پی کی حکومت والی تین ریاستوں میں قانونی عمل کو درکنار کر ملزمان کو من مانے ڈھنگ سے قصوروار قرار دیکر ان کے مکانات کو مسمار کرنے کی کارروائی کی جاتی رہی ہے۔ آئینی نظام پر حملے کی شروعات یوپی کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے کی تھی۔ وہ اس کام میں اتنے مشہور یا کہہ لیجئے کہ بدنام ہوئے کہ لوگ انھیں ’’بلڈوزربابا‘‘ کہنے لگے۔اس لقب پر بابا بھی پھولے نہیں سماتے رہے۔ ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے مدھیہ پردیش اور پھر بی جے پی حکومت بننے کے بعد راجستھان میں بھی بلڈوزر کے گرجنے کی بازگشت پوری دنیا میں سنائی دینے لگی۔تازہ ترین واقعہ کی بات کریں تو اسی سال ماہ جون میں یوپی کے مراد آباد اور بلیا میں 2 ملزمان کی 6 جائیدادیں مسمار کر دی گئیں۔اسی دوران بریلی میں روٹی کے تنازعہ پر ایک نوجوان کو پیٹ پیٹ کر ہلاک کرنے والے ہوٹل مالک ذیشان کے ہوٹل کو زمین بوس کر دیا گیا۔ 21 اگست کومدھیہ پردیش کے چھتر پور کوتوالی پولس اسٹیشن پر پتھراؤ کرنے کے لئے ہجوم کو اکسانے کے الزام میں 24 گھنٹے کے اندر، حکومت نے 20 کروڑ روپے کی لاگت سے بنی ، حاجی شہزاد علی کی تین منزلہ حویلی کو مسمار کردیا۔ اسی طرح راجستھان کے ادے پور کے ایک سرکاری اسکول میں 10ویں جماعت میں پڑھنے والے بچوں کے درمیان ہوئی مارپیٹ کے معاملے کو ہوا دیکر بات کا اس قدر بتنگڑ بنایا گیا اور پھر 17 اگست کو ملزم طالب علم کے والد سلیم شیخ کے گھر کو منہدم کر دیا گیا۔اس سے قبل حکومت کی ہدایت پر محکمہ جنگلات نے ملزم کے والد کو غیر قانونی کالونی میں بنایا ہوا مکان خالی کرنے کا نوٹس دیا تھا۔اس طرح کی غیر قانونی اور غیر آئینی کارروائی کا سلسلہ دراز ہوتا چلا جا رہا تھا۔اسی دوران ایک عرضی پر سنوائی کرتے ہوئے ، سپریم کورٹ نے بی جے پی کے اس منافرت آمیز ’’بلڈوزر ایکشن‘‘ پر بریک لگا دیا ہے۔سپریم کورٹ کی ہدایت میں مضمر عندیہ سے ایسا لگ رہا ہےکہ معاملے کی مکمل سماعت کے بعد اس غیر جمہوری ایکشن پر ہمیشہ کے لئے بریک لگ جائےگا۔
مہاراشٹر میں انتظامیہ کے ذریعہ بلڈوزر کا استعمال کر مبینہ مزار کو منہدم کیے جانے کا معاملہ سامنے آیا ہے۔ بتایا جا رہا ہے کہ رات کی تاریکی میں ناسک منماڈ چاندواڑ شاہراہ پر بنے مزار پر بلڈوزر ایکشن ہوا ہے۔ اس سے قبل میرا روڈ میں بھی ایک مزار کو نیست و نابود کر دیا گیا تھا۔دراصل بی جے پی رکن اسمبلی نتیش رانے نے اسمبلی میں قومی شاہراہ پر بنے اس مزار کا معاملہ اٹھایا تھا اور اسے مزار کے نام پر ’لینڈ جہاد‘ سے تعبیر کیا تھا۔ انھوں نے مزار کو ختم کرنے کا الٹی میٹم بھی دیا تھا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ انتظامیہ نے بلڈوزر سے مزار کو منہدم کر دیا۔ اس کارروائی کے بعد شاہراہ پر سیکورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے ہیں۔ بڑی تعداد میں پولیس فورس کی تعیناتی کی گئی ہے تاکہ کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہ آئے۔
انتہائی افسوسناک خبر ہے کہ لکھنو کے اکبر نگر میں 16 بلڈوزروں سے سینکڑوں مکانات منہدم کر دیے گئے ان مکان مالکوں میں بعض نے اپنے مکان خریدے تھے جبکہ اکثر نے زمینیں خرید کر مکان بنائے تھے اہل خانہ اور بچے چیختے رہے مگر لکھنو میونسپل کارپوریشن اور لکھنو ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے 16 بلڈوزر مسلسل منہدم کرتے رہے مقامِ افسوس یہ ہے کہ گورنمنٹ وہاں روڈ اور پانی وغیرہ کی سہولتیں بھی دے رہی تھی، لائٹ کی سپلائی بھی اپنے اصولی طریقوں سے ہو رہی تھی مدرسہ اہل سنت نور اسلام کے بانی و مہتمم حضرت مولانا قاری روشن علی قادری سے موبائل پر گفتگو ہوئی، وہ درد و غم سے نڈھال تھے، فرمانے لگے کہ آپ کو تو ہم نے اپنے مدرسہ کے اجلاس میں مدعو کیا تھا آپ تشریف بھی لائے تھے ظلم و جبر کا نشانہ بنا کرسب کچھ نیست و نابود کر دیا ۔ایف زیڈ پبلک اسکول، محمدیہ مسجد، مدرسہ فاطمہ زہرا للبنات کو بھی بلڈوزر کا نشانہ بنا دیا گیا موصوف نے فرمایا کہ ہر سال ہمارے مدارس سے حفاظ و قرا کی قابل ذکر تعداد فارغ ہوتی تھی فرمانے لگے کہ ان اداروں کی تعمیر میں 10 کروڑ سے زائد رقم خرچ ہوئی تھی مزید فرمایا کہ مزید تین مسجدیں بھی شہید کر دی گئیں۔ یہ افسوس ناک حالات ہیں، ہم نے چند باتیں انتہائی اختصار کے ساتھ سپردِ قلم کی ہیں۔ ان درد ناک احوال کی روداد سناتے ہوئے قلم اشک بار ہے۔ آپ نے سنا، کتنے مدارس، مساجد، اور مزارات کو شہید کر دیا ، ان مقدس مقامات سے مسلمانوں کی عقیدت کا رشتہ تھااور مدارس میں نئی نسلوں اور نادار طلبہ کی تعلیم و تربیت کا تعلق تھا، جن کے مکانات توڑ دیے گئے ہیں ان بے چاروں کے پاس اتنا سرمایہ کہاں ہے کہ وہ نئی زمینیں خرید کر اپنے مکان تعمیر کرائیں، اس لیے ہم سپریم کورٹ سے گزارش کرتے ہیں کہ کروڑوں کے نقصانات کی بھرپائی کے لیے بلڈوزر حکومتوں کو آرڈر کرے کہ یہ حکومتیں انھیں بھر پور معاوضہ دیں، حیرت و افسوس کا مرحلہ یہ ہے کہ ایک فرد سے جرم کچھ اور ہوا ہے ، اس مجرم کے اس جرم پر کیس چلانے اور اس پر سزا سنانے کے بجاے اس کی بلڈنگ اور مکان پر بلڈوزر چلانے کا کیا مطلب ہے؟ اور پھر سارے جرائم مسلمانوں اور غیر بی جے پی والوں کے ہی کیوں اجاگر ہوتے ہیں، اور اگر ہیں بھی تو ان کی سزا میں ان کے مکانوں اور جائدادوں کو تباہ کرنا کہاں کا انصاف ہے؟ ان شاء اللہ تعالیٰ سپریم کورٹ کا فیصلہ حق و انصاف پر مبنی ہوگا۔
ReplyForward
|