مولانا مبارک حسین مصباحی
(چیف ایڈیٹر ماہ نامہ اشرفیہ، مبارک پور اعظم گڑھ)
وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ
اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوز و ساز
جی ہاں! یہ حق اور سچ ہے کہ اسلام نے عورت کو عظیم مقام عطا کیا ہے ۔ جس عہد میں اللہ تعالیٰ کے آخری رسول کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم جلوہ گر ہوئے ، عرب کے بعض لوگ اپنی بچیوں کو زندہ درگور کر دیتے تھے ۔ انھیں خوف یہ ہوتا تھا کہ جوان ہوں گی تو ان کی شادیاں کرنا ہوں گی اور نوجوانوں کو داماد بنانا ہوگا۔ مگر سرور کائنات صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنی بچیوں سے حد درجہ محبت فرما کر دنیا کو یہ پیغام دیا کہ بچیاں در گزر کرنے کے لیے نہیں بلکہ سینے سے لگانے کے لیے ہوتی ہیں۔ سیدۃ نساء العالمین سیدہ فاطمہ زہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے مقام و منصب سے کون واقف نہیں ،جب یہ لخت جگر آپ کی بارگاہ میں تشریف لاتیں تو آپ کھڑے ہو جاتے تھے۔ امیر المومنین مولا علی کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم سے کتنی زیادہ محبت فرماتے تھے ۔ سیدنا عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے یکے بعد دیگرے آقا صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنی دو بیٹیوں کا نکاح فرمایا۔ یہ دونوں صاحب زادیاں حضرت رقیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہااور حضرت ام کلثوم رضی اللہ تعالیٰ عنہا زہد و ورع اور عصمت و طہارت میں اعلیٰ مقام رکھتی تھیں۔آپ بہ خوبی جانتے ہیں کہ ایک بیوہ کو سماجی طور پر منحوس تصور کیا جاتا تھا مگرہمارے رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنے پچیس سالہ عنفوانِ شباب میں دو شوہروں کی چالیس سالہ بیوہ ام المومنین سیدہ خدیجۃ الكبرىٰ رضى اللہ تعالیٰ عنہا سے نکاح فرما کر زمانے کو یہ درس دیا کہ بیوہ منحوس نہیں بلکہ محبت کرنے کی چیز ہے ۔ آپ خود غور کریں ہمارے نبی علیہ الصلاۃ والسلام حسن و جمال کے حسین پیکر اور کردار و اخلاق کے ماہ کامل تھے ۔آپ کو کوئی بھی خوب رو نوجوان کنواری دوشیزہ مل سکتی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسرا نکاح پچاس برس کی عمر میں فرمایا۔ ایک باپ کی حیثیت سے بیٹیوں کی پیدائش اور پرورش پر مژدہ ٔجاں فزا سنایا گیا ہے، آقا کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس شخص کے تین بیٹیاں ہوں جن کے رہنے سہنے کا وہ انتظام کرتاہو ، وہ ان کی تمام ضرورتیں پوری کرتا ہو، وہ ان سے شفقت کا برتاؤ کرتا ہو تو یقیناً اس کے لیے جنت واجب ہوگئی ۔سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے سوال کیا کہ جس کے دو بیٹیاں ہوں ؟فرمایا خواہ دوہی ہیں ان سے حسن سلوک پر بھی یہی خوش خبری ہے ۔(ادب المفرد 78)اسی مفہوم کی دیگر احادیث بھی موجود ہیں ماں باپ اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمتیں ہیں۔ قرآن عظیم اور احادیث نبویہ میں والدین کریمین کے بلند مقامات بیان کیے گئے ہیں ۔ متعدد احادیث میں ہے کہ مقدس ماں کے قدموں کے نیچے جنت ہے ۔من روایۃ الخطیب فی الجامع عن انس رضی الہ تعالیٰ عنہ:” الجنۃ تحت اقدام الامہات“۔ جنت ماؤں کے قدموں کے نیچے ہے۔اسی طرح بعض احادیث میں والد گرامی اور بعض میں دونوں کے تعلق سے وارد ہے ۔ اب آپ غور کریں کہ ایک ماں نو ماہ تک اپنے پیٹ میں رکھتی ہے۔ مختلف مشکلات سے گزرتی ہے ، دردزہ ایک انتہائی مشکل مرحلہ ہوتا ہے ،اس کی تعبیر کے لیے ہمارے پاس الفاظ نہیں ۔ والد گرامی کتنے مشکل مراحل سے گزر کر اپنے بچوں کی پرورش کرتا ہے۔ شب و روز محنت کر کے وہ اپنی اولاد کے لیے سرمایۂ حیات جمع کرتا ہے ۔ خاص بات یہ ہے کہ دنیا میں عام طور پر لوگ اپنے سے آگے بڑھنے کے دوسروں کے لیے خواہش مند نہیں ہوتے ، ہاں یہ انفرادی اوصاف ماں اور باپ ہر ایک میں ہوتے ہیں جو نہ صرف عملی کا وشیں کرتے ہیں بلکہ ان کی قلبی آرزو ہوتی ہے کہ ہماری اولاد بے پناہ ترقی کرے۔ اسے آسمان کی بلندیوں پر دیکھ کر ماں باپ بے پناہ مسرور ہوتے ہیں۔ اب دیکھیے قرآن عظیم میں اللہ تعالیٰ کا کتنا بلیغ ارشاد فرما یا ہے۔
اور تمہارے رب نے حکم فرمایا کہ اس کے سوا کسی کو نہ پوجو اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو، اگر تیرے سامنے ان میں ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان سے ہُوں نہ کہنا اور انہیں نہ جھڑکنا اور ان سے تعظیم کی بات کہنا ۔اور ان کے لیے عاجزی کا بازو بچھا نرم دلی سے اور عرض کر کہ اے میرے رب تو ان دونوں پر رحم کر جیسا کہ ان دونوں نے مجھے چھٹپن میں پالا۔ (بنی اسرائیل آیت:۲۳، ۲۴) نبی اکرم نور مجسم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:اللہ تعالی کی رضا والدین کی کے راضی ہونے میں ہے اور اللہ تعالی کا غضب والدین کی ناراضی میں ہے۔( الترغیب والترہیب، ج ۳، ص: ۲۲۳) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:کیا میں تمھیں سب سے بڑے کبیرہ گناہ کی خبر نہ دوں؟ تو یہ اللہ تعالی کےساتھ شریک ٹھہرانا اور ماں باپ کی نافرمانی کرتا ہے۔( بخاری شریف ج ۲ ص : ۸۸۴، مسلم شریف ، ج:۱ ص: ۶۴)
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”لعن الله العاق لوالديه“اللہ تعالی نے ماں باپ کے نافرمان پر لعنت فرمائی ہے۔(الدرالمنثور، ج ۴، ص: ۷۵) والدین کریمین کی اخلاقی اور ایمانی ذمہ داری ہے کہ اپنی اولاد سے بے پناہ محبت کریں ، ماقبل کے دلائل سے آپ نے سمجھ لیا کہ قرآن اور احادیث کی روشنی میں ماں اور باپ کا مقام کتنا بلند ہے۔ اب ان پر لازم ہے کہ وہ اپنی بیٹیوں کی تعلیم و تر بیت پر مکمل نگاہ رکھیں ، ان کی تربیت کرنا اپنی وسعت کے مطابق ان کے رہنے سہنے اور پہننے اوڑھنے کے لیے خرچ کرنا ماں باپ کا فرضی منصبی ہے۔ بچیوں کو اعلیٰ تعلیم دلانے سے اسلام روکتا نہیں مگر وہ پہلے گھر پر یا کسی ذمہ دار استاذ سے انھیں دینی تعلیم دلائیں ۔ آج کل مسلم بچیوں کے لیے دینی تعلیم کے ہزاروں مدارس کھلے ہوئے ہیں ۔ یہ گھر کے بڑوں کی ذمہ داری ہے کہ بچیوں کو ان میں داخل کرائیں، اگر مقامی طور پر ادارے ہوں تو ان میں بہتر ہے، اور اگر نہیں ہوں تو ان کا ایڈمیشن ایسے مدارس میں کرائیں جہاں مکمل پردے کے اہتمام کے ساتھ بچیوں کو ہاسٹل میں رکھا جاتا ہے ، یہ بات ہم اس لیے کہہ رہے ہیں کہ بعض بچیوں کے دینی مدار س بھی خرافات سے محفوظ نہیں ہیں۔
جو حضرات عصری تعلیم کے لیے بڑی بچیوں کو دیگر شہروں کے کالجوں اور یو نیورسٹیوں میں رکھتے ہیں عام طور پر اہل خانہ ان کے حالات سے واقف نہیں ہوتے کہ بچیاں درس گاہوں میں جاری ہیں یا نہیں ۔ عام طورپر مخلوط تعلیم ہوتی ہے جس میں لڑکے اور لڑکیاں ایک ساتھ کلاس میں پڑھتے ہیں۔ بچیاں غیر مسلم لڑکوں کے اخلاقی رویوں سے سے متاثر ہو جاتی ہیں یہ سب کچھ بہ یک جنبش نہیں ہوتا بلکہ سب کچھ ٹرینگ کے مطابق درجہ بہ درجہ ہوتا ہے، وہ غیر مسلم لڑ کے پہلے اسلامی طرز لباس ، پردے اور برقعے کی تعریف کرتے ہیں ،لڑکیوں کے اسلامی اخلاق واطوار کے مداح ہوتے ہیں، کلمہ طیبہ وغیرہ کی تعریف کرتے ہیں۔ جب مسلم لڑ کیاں ان سے متاثر ہو جاتی ہیں تو غیر مسلم لڑکےکثیر مطالبۂ جہیز سے مشکل نکاح ، طلاق کی کثرت اور حلالہ کی بحث چھیڑ دیتے ہیں اور اس کے بعد چار نکاح کے جواز پر لعن طعن شروع کر دیتے ہیں ۔نفسیاتی طور پرلڑ کیاں کم عقل ہوتی ہیں وہ اپنی نادانی سے اسلام مخالف نظریات کی حمایت کرنے لگتی ہیں۔ عشق کی واردات جب حد سے بڑھ جاتی ہے تو جوانی کا جوش و خروش ، امنگ و ترنگ اور جذبۂ شوق کا سیل رواں لڑکیوں کی عقلوں پرپردہ ڈال دیتا ہے ۔ وہ بھول جاتی ہیں کہ مذہب اسلام کی سچائی کتنی عظیم ہے ۔ان کے دل و دماغ پر شیطان سوار ہو جاتا ہے ۔ ان کو نہ جہنم کا ڈر ہوتا ہے اور نہ اللہ تعالیٰ کا خوف اور نہ اپنے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا حقیقی عشق ، بس انھیں اپنی شیطانی خواہشات کی تکمیل ہی میں سب کچھ ہرا بھرا نظر آتا ہے۔اس پس منظر میں سب سےخطرناک مہم مسلم بچیوں کو مرتد بنا کر ہندو نو جوانوں کا ان سے شادیاں کرنا ہے۔ اس کی مسلسل دردناک خبریں سوشل میڈیا اور مختلف ذرائع ابلاغ سے آرہی ہیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہندتو کی مختلف تحریکیں ہندو نوجوانوں کو ٹر یننگ دے رہی ہیں حکومت میں بیٹھے ان کے بڑے بڑے سپاہی بھی خاموش حمایت کر رہے ہیں ، مسلم لڑ کیوں کے مرتد ہو کر غیر مسلموں سے شادیاں کرنے کی تعداد لاکھوں تک پہنچ چکی ہے۔ ایسا ہرگز نہیں کہ ماں باپ اور اہلِ خانہ پہلے سے نا آشنا ہوتے ہیں۔ جب اپنی معاشی حالت معلوم ہوتی ہے تو بچیوں کے پاس قیمتی موبائل اور بیش قیمت لباس کہاں سے آرہے ہیں؟ اخراجات کے لیے لمبی لمبی رقمیں کہاں سے آرہی ہیں؟ امت مسلمہ ان قیامت خیز خبروں کو سن کر سینہ تو پیٹ رہی ہے ، خون کے آنسو بھی رو رہی ہے مگر غم واندوہ سے دلوں کا بوجھ تو ہلکا کیا جا سکتا ہے مگر یہ زمینی مسائل کا حل تو نہیں ۔انفرادی طور پر علما اور دانش ورتحریریں پیش کر رہے ہیں ،مساجد اور پروگراموں میں تقریریں بھی ہو رہی ہیں ، مگر ہمارے علم میں کوئی بھی منظم تحریک اس رخ پر باضابطہ کام نہیں کر رہی ہے۔ ماضی میں جب شدھی تحریک چلی تھی تو تحریک رضاے مصطفیٰ بریلی شریف حرکت میں آئی ،حضرت مفتی اعظم ہند بریلوی، حضرت صدر الا فاضل مراد آبادی ، مولانا قطب الدین برہمچاری، برہانِ ملت جبل پوری، مولانا ظفر الدین بہاری وغیرہ افراد باضابطہ سامنے آئے تھے ، ان بزرگوں نے صرف تحریریں اور تقریریں ہی نہیں کی تھیں بلکہ عملی طور پر میدان میں اترے تھے اور شدھی تحریک سے متا ثر علاقوں میں مہینوں مہینوں رہ کر خدمات انجام دی تھیں ، اس رخ پر ہمارے قائدین کو سنجیدگی سے غور کر کے عملی قدم اٹھانا چاہیے۔اس سلسلے میں سب سے بڑی کوتاہی والدین اور اہل خانہ کی بھی ہے وہ اپنی بچیوں کو اسلام اور اس کی اہمیت سے پورے طور پر آشنا نہیں کراتے ، حالانکہ شرعی طور پر ہم سب کو اپنی لڑکیوں کو ناظرہ قرآن عظیم اور ضرورت بھر اپنی مادری زبان میں اسلامی عقائد، رسول کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی سنتوں سے آشنا کرانا چاہیے ۔ مگر افسوس ہم لوگ اپنے گھروں میں مساجد اور خانقا ہوں پر مسلسل طنز کرتے ہیں ، علما، ائمہ اور حفاظ پر بے جا تنقیدوں کے نشتر برساتے رہتے ہیں۔ ہماری بچیوں کو کچھ معلوم نہیں ہوتا کہ مذہب میں توحید ورسالت کا مفہوم کیا ہے ،ہمارے بزرگوں نے دین و سنیت کے فروغ کے لیے کیسی کیسی قربانیاں پیش کی تھیں، ہماری خواتین کو نہیں معلوم کہ امہات المومنین رضوان اللہ تعالیٰ علیہن کا مقام و و منصب کیا ہے ۔ ہم ذرا تعلیم حاصل کرتے کراتے ہیں تو چار برس کی عمر میں اپنے بچوں کو انگلش میڈیم اسکول میں داخل کرا دیتے ہیں وہاں ہندومت اور عیسائیت ان کے دماغوں میں داخل ہو تی رہتی ہے۔ انھیں نہ کلمہ طیبہ کی اہمیت کا اندازہ ہے اور نہ مسائل شریعت کا، انہیں نہ اسلام کی سچی تعلیمات سے آگاہی ہے اور نہ بزرگ خواتین اسلام کے مقام و منصب کی ، ہم نے شعور کے آنکھیں کھولیں تو نگاہوں کے سامنے دنیا اور صرف دنیا ہوتی ہے ۔ ان کی نگاہوں کے سامنے جدید کلچر کی کشش ہوتی ہے ۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے: ترجمہ: بے شک اللہ کے یہاں اسلام ہی دین ہے۔آج جو بد ترین صورت حال ہمیں خون کے آنسو رونے پر مجبور کر رہی ہے، اس نے آنکھوں کی نیند اڑا دی ہے، اسلام کی صداقت اور برتری ناقابلِ تردید حقیقت ہے، مگر یہ ہماری کتنی بڑی ناکامی اور نامرادی ہے کہ ہماری جوان بچیاں مذہب اسلام کو چھوڑ کر ہندو مذہب اختیار کر رہی ہیں۔ اس پس منظر میں حسب ذیل آیات کی تلاوت کیجیے۔فرمادو، کافروں سے کوئی دم جاتا ہے کہ تم مغلوب ہوگے اور دوزخ کی طرف ہانکے جاؤ گے اور وہ بہت ہی برا بچھونا۔ (آل عمران، آیت:۱۲)
اے سننے والے کافروں کا شہروں میں اہلے گہلے پھرنا ہرگز تجھے دھوکا نہ دے۔ تھوڑا برتناہے پھر ان کا ٹھکانا دوزخ ہے اور کیا ہی برا بچھونا۔ (آل عمران، آیت:۱۹۷)آج کل جو مسائل سامنے ہیں ان میں لڑ کیاں صرف زنا کاری تک محدود نہیں ہیں، بلکہ وہ اپنا دین و مذہب ترک کر کے غیر مسلموں کے دین کو قبول کر رہی ہیں، اسی کا نام ارتداد ہے، ، اس کی انتہائی بد ترین صورت یہ ہے کہ انھوں نے اپنی عارضی محبت کے لیے جنت کو چھوڑ کر جہنم کا راستہ اختیار کیا۔ یہ انتہائی بد ترین طریق عمل ہے ، اس سے دنیا بھر میں ہندوستانی مسلمان بدنام ہو رہے ہیں، ان ظالم بچیوں سے کوئی پوچھے، تم نے اپنی دنیا و آخرت تباہ کی ہے، اپنے اہلِ خانہ کو بھی ناکام و نامراد بنا دیا ہے۔ ان حالات میں ہم مزید کچھ عرض کرنے سے عاجز ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ہدایت کا راستہ عطا فرمائے آمین۔