مبارک حسین مصباحی(جامعہ اشرفیہ مبارک پور)
ع- مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی
یہ مصرع کسی شاعر نے مریضِ عشق کے احوال کو سامنے رکھ کر کہا تھا، لیکن آج کل یہ مصرع ہندوستانی مسلمانوں پر پورے طور پر صادق آتا ہے۔ مدارس و مکاتب ہوں یا اوقاف و مساجد، یہ مسلمانوں کی خاص قومی املاک بھی ہیں اور ان کے دینی و ملی مراکز بھی۔ ان مقدس مقامات سے ہمارا رشتہ دینی بھی ہے اور قومی بھی۔ مسلمان بحیثیت مسلمان سب کچھ گوارا کر سکتا ہے لیکن ان مقامات کی دینی اور قومی حیثیتوں پر کوئی ضرب آئے یہ بہر صورت ناقابل برداشت ہے۔ ان مقامات کے تحفظ و بقا اور تعمیر و ترقی کے لیے وہ اپنی خون پسینے کی کمائی بھی صَرف کرتے ہیں اور شرعی حدودمیں رہ کر ان سے متعلق اپنے حقوق کی حصول یابی کے لیے سیاسی جد و جہد بھی ۔ہزار انتشار و اختلاف کے باوجود ان کے حوالے سے قومی قیادت بھی ہمیشہ حساس اور بیدار رہتی ہے۔ بابری مسجد تنازع کی شکار ہو کر شہید کر دی گئی اور اس وقت اس کی زمین پر غیروں کا غاصبانہ قبضہ بھی ہے، لیکن ہندوستانی مسلمان اپنی لاچاری اور بے بسی کے اس حادثہ پر مسلسل ماتم بھی کرتے رہتے ہیں اور بازیابی کی جد و جہد بھی، اور جہد مسلسل کا یہ عمل اس وقت تک جاری رہے گا جب تک اس زمین پر مسجد کی تعمیر نو نہیں ہو جاتی۔ یہ تو ایک مثال ہے ۔ مسلمان اپنے ہر مقدس مقام سے اسی طرح شیفتگی اور وابستگی رکھتا ہے۔حکومتیں آزادی کے بعد سے اوقاف و مساجد اور مدارس و مکاتب کی فلاح و بہبود کے نام پر کچھ نہ کچھ کرتی رہی ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ مسلمانوں کے تعلق سے بد نیتی کے نتیجے میں ہر بھلائی میں کچھ نہ کچھ برائی کا پہلو ضرور پنہاں ہوتا ہے۔ اس وقت ہماری میز پر اوقاف اور مدارس کے حوالے سے تین مسائل ہیں جن کا ظاہری پہلو یقیناً مسلمانوں کے لیے بڑا دل کش ہے، لیکن اس کا باطنی پہلو مسلمانوں کے لیے انتہائی خطرناک اور بھیانک ہے، یعنی اس دوا سے افاقے کے بجاےمرض بڑھنے ہی کا خطرہ زیادہ ہے۔ سر دست ہم اوقاف و مدارس کے حوالے سے کچھ گفتگو کرنا چاہتے ہیں کہ آپ اوقاف و مدارس کے حوالے سے اگر بیدار نہیں رہے تو آنے والے دنوں میں آپ غیر شعوری طور پر سیکولرازم کے رنگ میں اس طرح گم ہو جائیں گے کہ خاک ہند میں آپ کے وجود و تشخص کی شناخت ہی مشکل ہو جائے گی یہ خطرات ہیں۔
بچوں کو لازمی اور مفت تعلیم کا قانون (رائٹ ٹو ایجوکیشن ایکٹ) یہ قانون اپنے ظاہر میں جتنا خوب صورت ہے، اپنے اندر مدارس و مکاتب اور اقلیتی تعلیمی اداروں کے لیے اتنا ہی زہر قاتل بھی ہے۔ اگر اس قانون میں مسلم قیادت کی پیش کردہ ترمیم کو قبول نہیں کیا گیا تو ان میں تعلیم و تربیت کا نظام حکومت کی مرضی کے عین مطابق یعنی سیکولر ہوگا۔
دوسرا مسئلہ اوقاف کے نئے ایکٹ کا ہے، جو ابھی حکومتی سطح پر زیر غور ہے ۔ اگر مسلمانوں نے اس مجوزہ ایکٹ میں شرعی اور قانونی نقطۂ نظر سے ترمیم نہیں کرائی تو ہندوستانی مسلمانوں کو کبھی نہ ختم ہونے والی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس لیے ضروری ہے کہ مسلمان ملک بھر میں اوقاف کے حوالے سے عام بیداری کی لہر پیدا کریں اور اوقاف کے تحفظ و بقا کے لیے مضبوط اور موثر ایکٹ کی منظوری کا ماحول بنائیں۔ وقف بورڈوں کا حال پہلے ہی سے ابتر ہے، اب نئے ایکٹ میں اگر مزید کچھ خامیاں رہ گئیں تو مسلمانوں کو اوقاف کے حوالے سے ناقابلِ حل مسائل سے دو چار ہونا پڑے گا ، پارلیمنٹ میں بل منظور ہونے کے بعد احتجاج و اختلاف کا کوئی نتیجہ بر آمد نہیں ہوتا ۔ اس لیے ضروری ہے کہ قابلِ اعتراض دفعات میں بروقت اصلاح و ترمیم کی مہم ملک بھر میں چھیڑی جائے اور حکومت کو یہ باور کرانے کی کوشش کی جائے کہ وقف ایکٹ (زیر غور بل) واقعی مسلمانوں کے لیے ناقابلِ قبول ہوگا۔
جدید بل (زیر غور) کے قابل اعتراض پہلوؤں پر روشنی ڈالنے سے پہلے ہم وقف بورڈ کی موجودہ صورت حال پر روشنی ڈالتے ہیں۔ مرکزی اور صوبائی وقف بورڈوں میں اوقاف کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ اسلام میں رفاہ عام اور خدمتِ خلق کی بڑی اہمیت ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خدمتِ دین اور عام انسانی نفع رسانی کے لیے کسی بھی چیز کے وقف کرنے کو صدقۂ جاریہ قرار دیا ہے۔ اس لیے عہد رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم سے لے کر آج تک ہر دور کے مسلمانوں نے اس سلسلۂ خیر کو جاری رکھا ہے۔ خود ہندوستان میں بھی مسلمانوں نے ہر دور میں اپنی املاک کو وقف کرنے کا سلسلہ جاری رکھا ہے۔ مساجد و مدارس، خانقاہوں اور مسافر خانوں کے نام پر ملک بھر میں اربوں کھربوں روپے کے اوقاف ہیں۔ ظاہر سی بات ہے کہ وقف کرنے والوں کی نیت خدمتِ دین اور خدمتِ خلق ہی ہوتی ہے۔ لیکن افسوس وقف بورڈوں کی بد نظمی اور کم زور قوانین کی وجہ سے اوقاف کی بے شمار زمینوں پر شہ زوروں نے ناجائز قبضہ کر رکھا ہے، بلکہ کتنے اوقاف کو فروخت بھی کر دیا گیا قانون و شریعت میں جس کا کوئی جواز نہیں۔ بہت سے اوقاف حکومتوں کے زیر تصرف ہیں، اسی طرح بہت سی زمینیں اور عمارتیں طویل مدت کے لیے لیز پر دے دی گئی ہیں، یا پھر مختصر مدت کے لیے دی گئی ہیں مگر اب شہ زور ان کے مالک بن بیٹھے ہیں۔ اسی طرح بہت سے اوقاف کے ایک بڑے حصے کو انتہائی معمولی کرائے پر دے دیا گیا ، اب کرایہ داری کے قانون کے پیش نظر نہ انھیں بہ آسانی خالی کرایا جا سکتا ہے اور نہ عصری نرخ کے مطابق ان کا کرایہ بڑھایا جا سکتا ہے۔ اس خرد برد میں عام لوگ کم اوقاف کے ذمہ دار اور اربابِ اقتدار زیادہ ملوث ہیں۔ خیر بد عنوانی تو اب ہماری حکومتوں کا مقدر بن گئی ہے لیکن وقف ایکٹ تو مضبوط اور مؤثر ہونا چاہیے کہ اگر متلاشیانِ حق قانونی چارہ جوئی کریں تو حق بہ حق دار رسید کے امکانات روشن ہوں اور دیر سویر اوقاف کو ان کی جائز حدود میں استعمال کرنے کی راہیں ہم وار ہوں۔اوقاف کا موجودہ نظام اتنا بد تر ہے کہ اوقاف کی حفاظت و ترقی کی جد و جہد کرنا تو دور کی بات ہے وقف بورڈ کا دفتری نظام بھی ڈھنگ سے چلانا مشکل ہے۔ در اصل وقف بورڈوں کی تشکیل کا قانون ہی غیر محفوظ ہے۔ حکمراں پارٹی کا نمائندہ ہی بورڈ کا ممبر اور چیر مین ہوتا ہے۔ اس طرح وقف بورڈ اور اس کے ذمہ داران بر سرِ اقتدار حکومتوں ہی کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں، اور پھر اربابِ حکومت اوقاف کا جائز و ناجائز استعمال کرتے ہیں اور اگر بورڈ کے ذمہ داران حکومتی مداخلت کو گوارا نہیں کرتے تو وقف بورڈ کو وزیر اعلیٰ تحلیل کر دیتا ہے اور وقف بورڈ کے سارے اختیارات کسی اسپیشل افسر کے حوالے کر دیے جاتے ہیں اور پھر اوقاف کے ساتھ وہ تمام رویے روا ہوتے ہیں جن کی نہ وقف ایکٹ اجازت دیتا ہے نہ مسلم پرسنل لاء
اب ہم چند باتیں راجیہ سبھا میں زیر غور وقف ایکٹ کے حوالے سے پیش کرتے ہیں۔ آپ پڑھ چکے ہیں کہ عام طور پر اوقاف پر بر سرِ اقتدار حکومت ہی کا تسلط ہوتا ہے۔ یہ چیز موجودہ ایکٹ میں بھی باقی ہے، بلکہ مزید بر آں نئے ایکٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ وقف بورڈ میں ٹاؤن پلانر، بزنس منیجر اور ماہر زراعت کا نمائندہ ہو اور وقف بورڈ کا ایک ممبر ذپٹی سکریٹری رینک کا بھی ہو۔ مذکورہ نمائندوں کی نمائندگی کو وقف بورڈ میں ضروری قرار دینا قطعاً غیر ضروری ہے۔ ان کی نمائندگی سے اوقاف میں مزید خرد برد کے خطرات بڑھ جائیں گے۔ اس کے بر خلاف زیر غور ایکٹ میں مسلم تنظیموں کی نمائندگی کو ختم کرنے کی بات کہی گئی ہے۔ اس پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ اربابِ اقتدار پر واضح رہنا چاہیے کہ ہندوستان میں سنی وقف بورڈ اور شیعہ وقف بورڈ کے نام سے دو بورڈ ہیں، اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ دونوں فرقوں کے علاحدہ علاحدہ اوقاف ہیں، اس لیے ان کے بورڈ بھی علاحدہ علاحدہ ہونا ہی بہتر ہے تاکہ ہر ایک کے اوقاف کا فائدہ ہر ایک کے فرقے سے وابستہ افراد کو پہنچے۔
ہندوستان کے اوقاف کا اگر بغور مطالعہ کیا جائے تو یہ حقیقت پورے طور پر واضح ہو کر سامنے آئے گی کہ ۹۰؍ فی صد اوقاف درگاہوں اور خانقاہوں سے متعلق ہیں۔ اور ان خانقاہوں اور درگاہوں کے حقیقی وارثین صوفی ازم والے اہل سنت و جماعت ہیں اور قدیم ہندوستان کے سنی اوقاف تو صرف انھیں کے ہیں، اس لیے ہم صوبائی اور مرکزی حکومتوں سے پر زور مطالبہ کرتے ہیں کہ سنی وقف بورڈوں میں اہل سنت و جماعت کو ۹۰؍ فی صد نمائندگی ملنا چاہیے۔ مگر یہ اسی وقت ممکن ہوگا جب علماے اہل سنت بھی سیاست و اقتدار میں اپنی حصے داری ثابت کریں۔ اور یہ کام خانقاہوں اور مدرسوں سے باہر نکل کر ہی ہو سکتا ہے۔ اس پس منظر میں ہم حکومت ہند سے پر زور مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ وقف بورڈوں میں سنی تنظیموں اور علماے اہلِ سنت کو ضرور اور بھر پور نمائندگی دے۔
زیر غور وقف ایکٹ میں ایک انتہائی خطرناک دفعہ در آئی ہے کہ جو وقف رجسٹرڈ نہیں ہوگا، اسے عدالت میں چارہ جوئی اور دفاع کا کوئی حق حاصل نہیں ہوگا۔ اوقاف کو رجسٹرڈ ضرور ہونا چاہیے، یہ بنیادی ذمہ داری وقف بورڈ کی ہے، لیکن اگر کوئی وقف رجسٹرڈ نہیں ہے تو اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ وہ شرعی وقف نہیں ہے۔ مثال کے طور پر ایک سو سال قدیم مسجد رجسٹرڈ نہیں، اس قانون کے پیش نظر اب اسے چاہے کوئی منہدم کردے یا ناجائز طور پر اس پر قابض ہو جائے ، وقف ایکٹ کے تحت نہ اس کے خلاف مقدمہ درج ہو سکتا ہے اور نہ اب مسلمان اس مسجد کو واپس لینے کا قانونی حق رکھتے ہیں۔ شریعت کے قانون میں حکومت کی یہ راست مداخلت ہے۔اس نئے ایکٹ میں مزید یہ بھی کہا گیا ہے کہ وقف بورڈ کے رجسٹریشن کے بعد بھی اگر حکومت کے ریکارڈ میں وہ جائداد وقف نہیں ہے تو قانوناً ریونیو ریکارڈ کے مطابق ہوگی۔ یعنی اس ایکٹ کے بعد نہ واقف کی نیت کی کوئی حیثیت ہوگی اور نہ وقف کے تعلق سے زمینی سچائی کی۔ اس لیے ہم کہنا چاہتے ہیں کہ وقف رجسٹرڈ ہو یا نہیں عدالتی چارہ جوئی سے ہرگز محروم نہیں ہونا چاہیے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ ماضی، حال اور مستقبل کے تمام اوقاف کو تیزی سے رجسٹرڈ ہونا چاہیے۔ اس ایکٹ میں کہا گیا ہے کہ وقف سروے کا کام ان اوقاف پر ہوگا جو ایکٹ کے نفاذ کے وقت وقف کی شکل میں ہوں، یہ بھی غلط ہے۔ موجودہ شکل کے بجاے اوقاف کے احوال واقعی کے مطابق سروے ہونا چاہیے۔ شرعی نقطۂ نظر سے جو چیز ایک بار وقف ہو گئی ، وہ تاقیامت وقف ہی رہے گی۔ شہ زوروں نے بر وقت اس کی جو بھی شکل بنا دی ہو، یہی سپریم کورٹ کا فیصلہ بھی ہے کہ جو جائداد ایک بار وقف ہو گئی، وہ وقف باقی رہے گی۔ رہا ریونیو کے ریکارڈ کا مسئلہ ، اس میں اصل رجسٹر کی حیثیت ہونا چاہیے، ریونیوریکارڈ کی اصلاح رجسٹر کے مطابق ہونا چاہیے۔ اس طرح دیکھا جاتا ہے کہ وقف کی املاک کو سرکاری ملازمین ، سرکاری زمین یا اسی طرح کچھ بھی لکھ دیتے ہیں اور اگر رینیو ریکارڈ ہی کو بنیای حیثیت حاصل ہوئی تو اوقاف کے حوالے سے سرکاری ملازمین کی دست درازی اور شر انگیزی مزید بڑھ جائےگی ، پہلے ریکارڈ بدلا جائے گا، اور پھر اسی بنیاد پر اوقاف کی املاک پر قبضہ کرنے کا قانونی جواز فراہم کیا جائے گا، پھر اس کے خلاف کوئی قانونی چارہ جوئی بھی ممکن نہیں ہوگی۔ زیر غور وقف ایکٹ میں اسی طرح کی اور بھی بہت سی خامیاں ہیں۔
آپ جانتے ہیں کہ یہ مدارس ، یتیم خانے، دینی اور عصری تعلیم کی درس گاہیں ،بیواؤں کی کفالت اور مریضوں کے علاج کے لیے قائم کیے گئے ادارے یہ سب اوقاف میں شامل ہیں۔ یہ سب وقف اللہ تعالیٰ ہوتے ہیں، کسی فرد واحد کی ملکیت نہیں ہوتے، ان کی نفع رسانی عام ہوتی ہے، اس لیے انھیں ہمیشہ انکم ٹیکس کے قانون سے آزاد رکھا گیا تھا۔ لیکن اس وقت موجودہ انکم ٹیکس قانون کی جگہ ڈائرکٹ ٹیکس کوڈ کا بل زیر غور ہے۔ اس بل میں ایک طرف مذہبی اداروںکوٹیکس سے مستثنیٰ بھی کیا گیا ہے اور دوسری طرف ان پر ٹیکس بھی لاگو کیا گیا ہے۔ یعنی اگر نان پروفٹ آرگنائزیشن ہو تو انھیں ٹیکسوں سے محفوظ رکھا گیا ہے۔ لیکن نان پرافٹ آرگنائزیشن کی تعریف ایسے اداروں سے کی گئی ہے جو کسی ایک مذہبی گروہ کے نہ ہوں اور جس سے تمام مذاہب کے لوگ فائدہ اٹھاتے ہوں۔ ظاہر سی بات ہے ، مدارس ہوں یا دیگر خیراتی ادارے ، عام طور پر اہل خیر حضرات اپنے مذاہب والوں ہی کے لیے بناتے ہیں۔ اس طرح ہر مذہب کے رفاہی اور خیراتی اداروں کو ٹیکس دینا وگا۔ وہ بھی ۳۰؍ فی صد ۔ اوقاف پر ۳۰؍ فی صد ٹیکس کا مطلب ہے کہ یہ ٹیکس یا تو اللہ تعالیٰ پر عائد کیا جا رہا ہے، یا غریبوں، یتیموں، نادار مریضوں یا بے سہارا بیواؤں پر ۔جو کام برطانوی عہد سے آج تک نہیں ہوا، وہ اب شروع کیا جا رہا ہے۔ یہ شاید بد عنوانی کا نیا راستہ تلاش کیا گیا ہے۔ غربت و جہالت کے خاتمے کے بجاے غریبوں اور جاہلوں کو ختم کر دیا جائے کہ نہ رہے بانس، نہ بجے بانسری۔ اے کاش کوئی ان قانون سازوں کو بتا سکتا کہ یہ دینی اور رفاہی ادارے کس مپرسی کے ساتھ اپنا سال مکمل کرتے ہیں، در در کی ٹھوکریں کھا کر رقمیں جمع کی جاتی ہیں، تب کہیں سال بھر کے لیے غریب بچوں کی کفالت کا سامان فراہم ہوتا ہے۔ مگر اب ان غریبوں کے خیراتی مال پر بھی حکومت کی نظر ہے۔ یہ بیمار قوم کا علاج ہے یا تباہی کا سامان؟