’جہد آزادئ ہند میں درپیش اہم واقعات و سانحات‘ کے عنوان سے قومی سیمنار کا انعقاد
لکھنؤ : ستمبر:فخرالدین علی احمد میموریل کمیٹی، حکومت اتر پردیش کے اشتراک سے الپ سنکھیک ایجوکیشنل سوشل ہیومن سوسائٹی کے زیر اہتمام بعنوان ’جہد آزادئ ہند میں درپیش اہم واقعات و سانحات‘لکھنؤ میں ایک سیمینار منعقد ہوا۔ڈاکٹر عمار انیس نگرامی جنرل سکریٹری آل انڈیا مسلم انٹلکچول سوسا ئٹی کی صدارت میں منعقد ہونے والے اس سیمنار میں مہمان خصوصی کی حیثیت سے اطہر صغیرزیدی ’طورج زیدی‘ چیئرمین فخرالدین علی احمد میں میموریل کمیٹی(حکومت اتر پردیش) شریک ہوئے۔ آغاز پروگرام ڈاکٹر محمد ادریس صاحب ندوی کی تلاوت پاک سے ہوا۔اس موقع پر اطہرصغیر زیدی’طورج زیدی‘ کو بحیثیت چیئرمین فخر الدین علی احمد میموریل کمیٹی، حکومت اتر پردیش کے طور پر تین سالہ مختلف علوم و فنون اور اردو زبان و ادب کی گراں قدرخدمات کے لیے ’علامہ اقبال ایوارڈ‘سے سرفراز کیا گیا۔ سیمینار میں ڈاکٹر محمد ادریس اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ عربی لکھنؤ یونیورسٹی لکھنؤ نے ’شاہ عبدالعزیز کا فتویٰ: جہاد جہد آزادیئ ہند میں ایک سنگ میل‘، ڈاکٹر احتشام خان نے ’1857ء کی بغاوت کے اہم نکات‘ڈاکٹر ذوالنورین حیدر علوی نے’کاکوری ٹرین ڈکیتی اور آزادی کے گمنام شہید‘، ڈاکٹر پروین شجاعت شعبہ اردو ممتاز پی جی کالج لکھنؤنے’پہلی جنگ آزادی کا قیدی بادشاہ: بہادر شاہ ظفر‘ کے عنوانات پر مقالات پیش کیے۔ڈاکٹر عمار انیس نگرامی نے اپنے صدارتی خطاب میں جہد آزادیئ ہند کے سبب پیش آنے والے سانحات وہ حادثات پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستان کی جہد آزادی دنیا کا ایسا ہی عظیم سانحہ ہے، جس نے ایک طویل تاریخ رقم کی ہے۔یہ ایسی تاریخ ہے جو اپنی آزادی پانے کے لیے بلا تفریق مذہب و ملت سارے عوام کی مشترکہ جدو جہد تھی۔ جلیا ں والہ باغ قتل عام1919ء، چمپارن ستیہ گرہ1917ء، خلافت تحریک 1919ء تا 1924ء، ڈانڈی مارچ 1930، بھگت سنگھ اور انقلابی تحریک اور اخیر میں آزادی کا اعلان15 اگست 1947، یہ واقعات اور سانحات ہندوستان میں حقوق کی آزادی اور انصاف کی جدوجہد میں سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ڈاکٹر محمد ادریس ندوی نے سیمینار کو خطاب کرتے ہوئے کہا کہ شاہ عبدالعزیز دہلوی رحمت اللہ علیہ کے فتوی نے برطانوی حکومت کے خلاف ہندوستانی مسلمانوں میں ایک نیا شعور پیدا کیا، آزادی کا جوش بھر دیا، ہندوستانی عوام اور خاص طور پر مسلمانوں میں یہ پیغام پہنچا کہ برطانوی حکومت صرف اسلامی ہی نہیں بلکہ انسانی حقوق اور اصولوں کے خلاف ہے۔ اس فتویٰ کے نتیجے میں کئی اسلامی انقلابی تحریکیں وجود میں آئیں، خاص طور پر سید احمد شہید اور شاہ اسماعیل شہیدؒ جیسے علماء نے انگریزوں کے خلاف جہاد کی تحریک چلائی، اس کے علاوہ تحریک ریشمی رومال، تحریک خلافت جیسی تحریکیں وجود میں آئیں،اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ برطانوی سامراج کے خلاف نہ صرف اسلامی نظریات کے تحت بلکہ مجموعی طور پر آزادی کی تحریک کو تقویت ملی اور ملک انگریزوں کے چنگل سے آزاد ہوا۔ڈاکٹر احتشام خان نے اپنے مقالے میں کہا کہ ہندوستان کی جنگ آزادی کا آغاز ایک طویل اور پیچیدہ جدوجہد کا نتیجہ تھا، اس میں مختلف سماجی، سیاسی اور معاشی عوامل شامل تھے، اس جنگ کا مقصد ہندوستان کو برطانوی سامراج سے آزادی دلانا تھا۔ 1857ء کی بغاوت کو جنگ آزادی کا پہلا بڑا قدم سمجھا جاتا ہے۔ڈاکٹر ذوالنورین حیدر علوی نے اپنے مقالے میں کہا کہ قصبہ کاکوری کا نام خصوصا اپنی ثقافتی علمی دینی روحانی اور مردم خیزی کی روایت کے لیے صدیوں تک معروف رہا،لیکن اس کی ایک اہم خاصیت جس سے کم لوگ ہی واقف ہیں وہ یہاں کے گمنام شہیدوں کی داستان ہے اس کا ایک باب’کاکوری ٹرین ڈکیتی‘ ہے جس میں ہندوستان کی آزادی کے کچھ کارکنوں نے حصہ لیا تھا۔جس میں سر فہرست رام پرساد بسمل، راجند لاہڑی، روشن سنگھ، اشفاق اللہ خان اور چندر شیکھر آزاد وغیرہ شامل تھے۔اس واردات کا مقصد بھی برطانوی حکومت کو کمزور کرنا اور آزادیئ ہند میں حصہ لینا تھا۔ ڈاکٹر پروین شجاعت نے پہلی جنگ آزادی کا قیدی بہادر شاہ ظفر پر روشنی ڈالی انہوں نے کہا کہ سراج الدین بہادر شاہ ظفر24/ اکتوبر 1775ء میں ہندوستان کی حکومت زوال پذیردور میں پیدا ہوئے۔۲۶ سال کی عمر میں وہ تخت نشیں ہوئے اور 1857ء کی جنگ آزادی میں وطن عزیز کو فرنگی اقتدار سے محفوظ رکھنے کے لیے عوام کی سرپرستی کی لیکن اپنے رفیقوں، ہمدردوں اور غمگساروں کی دغا بازی سے اپنے ہی لال قلعے میں قیدی بن کر فرنگیوں کے سامنے پیش ہوئے۔جہد آزادی ئ ہند کی تاریخ میں بہادر شاہ ظفرکی قربانیون، دلیری اور شجاعت کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ اس سیمینار میں امیرالدولہ اسلامیہ ڈگری کالج کے پرنسپل ڈاکٹر دلشاد احمد انصاری، ممتاز انٹر کالج کے پرنسپل نوشاد حسین پٹھانیہ،مشہور و معروف صحافی توصیف حسین،عبد الوحید صدیقی، زبیر احمد، عمران قریشی، حسن متین، سعود راحیل، احمد اویس،شاداب خان،محمد سیف اور شہر کے مختلف مکتب فکر سے تعلق رکھنے والی معزز اور مؤقر شخصیات نے شرکت کی۔